- فتوی نمبر: 23-200
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > منتقل شدہ فی حظر و اباحت
استفتاء
(1)عَنْ عَقَّارِبْنِ الْمُغِيرَةِبْنِ شُعْبَةَعَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اكْتَوَى أَوْ اسْتَرْقَى فَقَدْ بَرِئَ مِنْ التَّوَكُّلِ.رواه احمد وترمذی وابن ماجة.
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنےفرمایا:جس شخص نےداغ لگوایایادم کروایاتووہ توکل سےلاتعلق ہوگیا۔
(2)حَدَّثَنَاأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ:قَالَ رَجُلٌ:يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَدُنَايَلْقَى صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا.قَالَ:فَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟قَالَ:لَا.قَالَ:فَيُصَافِحُهُ؟قَالَ نَعَمْ إِنْ شَاءَ.(مسنداحمد:13075)
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک آدمی نےپوچھااے اللہ کےرسولﷺ:جب کوئی آدمی اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا اسے اس کےلیےجھکنا چاہیے؟آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے پھر پوچھا: کیا اس سے معانقہ کرے اور اس کا بوسہ لے؟ آپﷺ نے فرمایا:نہیں۔ اس نے کہا:تو پھر کیا اس سے مصافحہ کرے؟آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں،اگر چاہے تو۔
(3) ان احادیث مبارکہ کےجوحوالے لکھےگئےہیں کیایہ درست ہیں؟اوران احادیث کی تفصیلاً تشریح فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) مذکورہ احادیث مبارکہ کےجوحوالے لکھے گئے ہیں وہ درست ہیں۔
(2)اس حدیث میں جودم کرنےسے منع کیاگیاہےاس سےمرادیا تو وہ دم ہےجس میں شرکیہ کلمات ہوں،اورداغ لگوانے سےاس آدمی کومنع کیاگیاہےجواللہ تعالیٰ کے بجائے داغ لگوانےسےہی شفاءملنےپراعتقادرکھےکہ اس داغ لگوانےیادم کرنےسےہی مجھےشفاءملےگی اور اگر جائز دم مراد ہو یا داغ لگوانے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے شفا ملنے کا عقیدہ رکھے تو پھر توکل سے اعلیٰ درجے کا توکل مراد ہے۔
(3) مصافحہ کرنے والی حدیث میں جو جھکنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ جھکنا ہے جو تعظیما ہو جو کسی ضرورت کی وجہ سے ہو وہ مراد نہیں۔ اور جس معانقے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ ہے جو ہر ملاقات میں کیا جائے یا وہ معانقہ مراد ہے جو شہوت کے ساتھ ہو۔کیونکہ معانقہ ہر ملاقات کے وقت مشروع نہیں بلکہ اس ملاقات کے وقت ہے جو ایک معتد بہ عرصہ کے بعد ہو۔اسی طرح بوسہ لینے سے جو منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ بوسہ ہے جو شہوت کے ساتھ ہو جو بوسہ محبت کی وجہ سے ہو یا عظمت کی وجہ سے ہو وہ مراد نہیں۔مزید تفصیل کے لیے جواہر الفقہ(1/546)ملاحظہ کریں۔
فيض القدير للمناوی(3/ 206)میں ہے:من اكتوى أو استرقى فقد برئ من التوكل) لفعله ما يسن التنزه عنه من الاكتواء لخطره والاسترقاء بما لا يعرف من كتاب الله لاحتمال كونه شركا أو هذا فيمن فعل معتمدا عليها لا على الله فصاربذلك بريئا من التوكل فإن فقد ذلك لم يكن بريئا منه وقد سبق أن الكي لا يترك مطلقا ولا يستعمل مطلقا بل عند تعينه طريقا للشقاءوعدم قيام غيره مقامه مع مصاحبة اعتقاد أن الشفاء بإذن الله تعالى والتوكل عليه ، وقال ابن قتيبة : الكي نوعان كي الصحيح لئلا يعتل فهذا الذي قيل فيه من اكتوى لم يتوكل لأنه يريد أن يدفع القدروالقدر لا يدافع . والثاني كي الجرح إذا فسد والعضو إذا قطع فهوالذي شرع التداوي فيه فإن كان لأمر محتمل فخلاف الأولى لما فيه من تعجيل التعذيب بالنار لأمر غير محقق.مرقاة شرح مشكاة (13/ 297)میں ہے:قال النبي من اكتوى أي بالغ في أسباب الصحة إلى أن اكتوى من غير ضرورة ملجئة أو استرقى أي بالغ في دفع الأمراض باستعمال الكلمات التي ليست من أسماء الله تعالى وكلمات كتابه ولا من الأدعية المأثورة عن رسوله فقد برىء من التوكل أي سقط من درجة التوكل التي هي أعلى مراتب الكمل وقد قال تعالى وعلى الله فليتوكل المؤمنون آل عمران وفي مبالغة مباشرة الأسباب دلالة على غفلته عن رب الأرباب.لمعات شرح مشكاة (رقم الحدیث4555)میں ہے:قوله: (من اكتوى أو استرقى فقد برئ من التوكل) يعني أن ذلك وإن كان مباحا لكن مقام التوكل والتفويض وترك الأسباب أعلى وأرفع، وإن كان المراد مع اعتقاد المؤثرية والعلية فهو شامل لجملة الأسباب والمعالجات، ولا يختص بالكي والاسترقاء.الكوكب الدری على جامع الترمذی(3/ 87)میں ہے:قوله [من اكتوى] ولم يضطر إليه. قوله [أو استرقى فهو بريئى من التوكل] أي من أعلى درجاته وأوساطها بلمن أوانيها أيضًا، فإن من اكتوى من غير ضرورة أو استرقى فإنه ليس في شيء من درجات التوكل، نعم لو أبقى (1) الاكتواء على حال الضرورة يفتقر إلى إرادة أعلى درجات التوكل بلفظ التوكل إلا أنه لا يستقيم على هذا عطف الاسترقاء فإن الرقية تنافي التوكل مطلقًا، والحاصل أن الكي ينافي التوكل إذا لم يستعمل في ضرورة والرقية تنافيها مطلقًا، وهذا في أوسط مراتبه، وأما أعلى مراتب التوكل فينافيه الكي والرقية مطلقًا.اعلاء السنن (17/418) میں ہے:التقبيل والاعتناق قد يكونان على وجه تحية. كالسلام والمصافحة. وهما اللذان نهى عنهما في الحديث، لان مجرد لقاء المسلم انما موجبه التحية فقط،فلما سأل السائل عنهما عند اللقاء فكأنه قال:اذا لقي الرجل اخاه او صديقه فكيف يحييه؟ أيحييه بالانحناء والتقبيل والالتزام ام بالمصافحة فقط؟فأجاب رسول الله بانه يحييه بالمصافحة ولا يحييه بالانحناء والتقبيل والاعتناق،فثبت ان التحية بهذه الامور غير مشروعة،وانما المشروع هو التحية بالسلام والمصافحة،وهو ما ذهب اليه ائمتنا الثلاثة:ابو حنيفة وابو يوسف ومحمد رحمهم الله،لان هذه المسئلة ذكره محمد رحمه الله في”الجامع الصغير”مریض ومعالج کے اسلامی احکام(ص: 44/45)میں ہے:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری سے شفاء تین چیزوں میں ہے۔۔۔۔۔۔(3)آگ کے ساتھ (یعنی آگ پر آلے کو گرم کر کے یابرقی ذریعے سے گرم کر کے )داغنے میں لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں (یعنی علاج کے دیگر طریقوں کو اس طریقے پر ترجیح دیتا ہوں کیونکہ یہ تو آخری درجے کا علاج ہے اس لئے ابتداء ہی میں اس کو اختیار کرنا خلاف اولیٰ ہے۔علاوہ ازیں دور جاہلیت میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ داغنا بیماری کو جلا دیتا ہے اور مریض تندرست ہوجاتا ہے اور اس کو اختیار نہ کیا جائے تو انسان مر جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں لوگ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ داغنا بذات خود آدمی کو شفا دیتا ہے غرض ممانعت کی ایک وجہ دور جاہلیت کے اس غلط عقیدے سے بچاؤ کی بھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (4) عن المغيرة بن شعبة قال قال النبي صلى الله عليه وسلم من اكتوي او استرقي فقد برئ من التوكل.(احمد وترمذی)ترجمہ:حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے (بلاضرورت اس انتہائی درجے کے علاج یعنی)داغ لگوانے کو اختیار کیا یا(غیر شرعی) دم کروایاتو وہ اللہ تعالی پر توکل سے خالی رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved