- فتوی نمبر: 27-185
- تاریخ: 03 اگست 2022
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
استفتاء
میں موبائلوں کی دکان میں کام کرتا ہوں جہاں پر نئے موبائل فروخت ہوتے ہیں ، اصل میں ہمارا یہی کام ہے لیکن موبائلوں کی وارنٹی دینے والی کچھ کمپنیاں مجھے کہہ رہی ہیں کہ آپ اپنی دکان کو موبائل کلیکشن سینٹر بھی بنالیں یعنی جو لوگ موبائل کی وارنٹی کلیم کرتے ہیں وہ اپنا موبائل آپ کو جمع کروائیں گے اور آپ ہمیں بھجوادیں گے ۔وارنٹی والے موبائل کی ہر خرابی مفت میں ٹھیک نہیں کی جاتی بلکہ کچھ خرابیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وارنٹی میں ہونے کے باوجود بھی ان کے پیسے لیے جاتے ہیں ،فری والے موبائلوں میں مجھے کچھ نہیں ملتا البتہ جن موبائلوں کے ٹھیک کرنے پر کمپنی پیسے لیتی ہے اس میں کمپنی مجھے یہ ڈسکاؤنٹ دیتی ہے کہ کمپنی کسٹمر کو مثلاً 8000روپے کا بِل بھیجتی ہے جس میں سے اپنا خرچہ نکال کر باقی 3000مثلاً مجھے دے دیتی ہے ،کمپنی موبائل کلیکشن سنٹر کے ذریعے ہی وصول کرتی ہے لیکن اگر یہ کسٹمر براہ راست کمپنی کو بھی موبائل بھیجے تو تب بھی اس کو کمپنی 8000روپے کا بل بھیجے گی۔
دکان کے مالک نے مجھے کہا ہے کہ اگر آپ یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہی اس کا سارا بوجھ سنبھالیں گے اور اس کی سردردی بھی ساری آپ کی ہوگی۔کام کا پراسیس یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کو جب میں موبائل بھیجتاہوں تو کمپنی مجھے فون کرتی ہے کہ اس موبائل پر اتنا خرچہ آئے گا اور آپ کو اتنا ملے گا اس کے بعد میں کسٹمر کو فون کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ اتنا خرچہ بن رہا ہے آپ نے کام کروانا ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد اگر وہ چاہے تو میں کمپنی کو موبائل ٹھیک کرنے کا کہہ دیتا ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے لیے کسٹمر سے 8000روپے وصول کرنا جائز ہے ؟اس لیے کہ کسٹمر سے بل میں نے ہی وصول کرنا ہوتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جائزہے۔
توجیہ:مذکورہ صورت وکالت بالاجرۃ کی ہے جس میں کلیکشن سینٹر والا، وارنٹی دینے والی کمپنی کا وکیل ہے اور کمپنی اس کو موبائل ٹھیک کرنے پر طے شدہ اجرت دیتی ہے،اور چونکہ آپس میں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ اجرت صرف ان موبائلوں پر ملے گی جس پر کمپنی خود بھی اجرت لے گی اس لیے اس بات سے بھی کوئی فرق نہ پڑے گا۔
فتح القدیر (7/2)میں ہے:
اذا أخذ الوکیل الأجرة لاقامة الوكالة ، فإنه غیر ممنوع شرعاً، إذا الوکالة عقد جائز، لایجب علی الوکیل إقامته ، فیجوزأخذ الاجرة فيها ۔
مجلۃ الاحکام العدلیہ (مادہ 1467)میں ہے:
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة
وفى درر الحكام تحته:يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى
مسائل بہشتی زیور ( 2/322)میں ہے:
جب وکالت پر اجرت شرط کی ہو اور وکیل نے وکالت پوری کردی ہو تو وہ اجرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور اگر اجرت شرط نہ کی ہو اور وکیل بھی ایسا نہیں ہے جو اجرت پر کام کرتا ہو تو وہ احسان کرنے والا ہوگا اور اس کو اجرت کا مطالبہ کرنے کا حق نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved