- فتوی نمبر: 15-4
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > تصاویر
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
- کیا موبائل میں تصویر میں لینا گناہ ہے ؟
- اگر موبائل میں ہو تو کیا اس کا گنا ہ ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- موبائل سے بنائی جانے والی جا ندار کی تصویر کےجائز ہونے کے بارے میں موجودہ اہل علم کا اختلاف ہے۔ہماری تحقیق یہ ہے کہ یہ بھی نا جائز ہے ۔
2۔جو تصاویر موبائل میں ہوں اور خود نہ بنائی ہوں ان کو باقی رکھنے میں گناہ نہیں کیونکہ جب تک وہ سکرین پر نظر نہیں آتیں ان پر تصوریر کا حکم نہیں لگتا ۔البتہ ان تصاویر کو بھی سکرین پر ظاہر کرکے دیکھنا اگر لذت کے ارادے سے ہو تو یہ بھی ناجائز ہے ورنہ جائز ہے بشرطیکہ کسی نامحرم عورت کی تصویر نہ ہو یا فحش تصویر نہ ہو[1]۔
[1] مفتی رشعيب احمد صاحب کی طرف سے جز دوم کا جواب
بنی ہوئی تصویر کو یا خود بنا کر اسے بلاضرورت قصداً محفوظ رکھنا ایک گناہ کو محفوظ کرنا ہے ،اس لیے جائز نہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسےبنی ہونا جائز تصوہر کو چھپا کررکھنا ۔ اگر کسی ضرور ت کی غرض سے محفوظ کی جائے یا ضمناً وتبعاً ہوجائے یا بغیر قصد کے محفوظ ہوجائے تو اس کا گنا ہ نہ ہوگا۔تاہم ان تصاویر کو بھی حتی الامکان مٹا دینا بہترہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے خارج میں اخبارات اور مصنوعات کے ڈبو ں پر موجود تصاویر۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا اس جواب پر تبصرہ:
قولکم :”جب تک وہ سکرین پر نظر نہیں آتی ان پر تصویر کا حکم نہیں لگتا “۔حکم نہ لگنے سےکیا مراد ہے؟کیونکہ تصویر سے جڑے احکامات مختلف ہیں ۔مثلاً صحۃ صلوۃ بحذائہ اور دخول ملائکہ رحمت وغیر ہ ۔کیا یہ مراد ہے یا کہ وہ تصویر ہی نہیں رہی بلکہ ختم ہوگئی ہے ؟
پہلا حکم یعنی صحت صلوۃ میں قادح یا دخول ملائکہ سے مانع نہ ہونے کا حکم لگنا تو مسلم ہے کیونکہ یہ دونوں احکام مکشوف او رمحترم تصویر سے وابستہ ہیں ۔کسی ایک علت کے فقدان سے حکم منتفی ہوجائے گا۔لیکن یہ کہ سکرین پرنظر نہ آنے کی صورت میں یہ تصویر ہی نہیں رہی یعنی استبقاء کے حکم میں بھی تصویر نہیں ہے۔یہ بات محل نظر ہے ۔یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ مستور ہوگئی یا مستور کی طرح ہوگئی یعنی فنی اعتبار سے اس کے مستور کرنے کا طریقہ حسی ستر سے مختلف ہےلیکن یہ کہ وہ معدوم ہو گئی یہ کہنا مشکل ہےکیونکہ اگر وہ معدوم ہو گئی ہے تو پھر اسکرین پر دوبارہ ظاہر کرنے کو صرف اظہار نہیں کہا جائے گا بلکہ اعادہ یا صنعت جدید کہا جائے گااور تصویر کو اسکرین پر ظاہر کرنے والا اسے بنانے والا شمار ہوگا۔ولا یقول بہ احد۔
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
نہ معدوم محض ہے کہ دوبارہ ظاہر کرنے کے لئے صنعت جدید کی ضرورت پیش آئے اور نہ محض مستور کی طرح ہے کہ ستر کے باوجود اپنی اصل شکل میں موجود رہتی ہو بلکہ بین بین کی صورت ہے یعنی اصلی شکل باقی نہیں رہتی البتہ اصل شکل کے ذرات باقی رہتے ہیں جو دوبارہ ظاہر کرتے وقت اصلی شکل تصویر میں نظر آتے ہیں خارج میں اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک تصویر کے مثلا چارٹکڑے کر دیے گئے جس کی وجہ سے وہ تصویر نہ رہی پھر انہی چار ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ دیا جائے یہ دوبارہ توڑنے کا عمل صنعت جدیدنہیں۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا تبصرہ:
”اس تقریر کا حاصل یہ ہے کہ تصویر جب اسکرین سے ہٹ گئی تو گویا منکسر ہوگئی کیونکہ خزانے میں اس کے ذرات ہیں تصویر بعینہ محفوظ نہیں ہے اس لئے اس پر بقاءصورت کا حکم نہ لگے گا اور جب سکرین پر ظاہر ہوئی تو منکسر اجزاء باہم جڑ گئے اس لئے یہ صنعت جدید نہ ہوئی بلکہ محض اظہار بصورت تکمیل ہوا“۔
اگر ڈیجیٹل تصویر کی حقیقت یہ ہے تو پھر ابتداءً ایسی تصویر بنانے پر عدم جواز بوجہ صنعت صورت کا حکم لگانا مشکل ہو گا کیونکہ جب تصویر بنائی جا رہی ہے تومکمل تصویر نہیں بن رہی بلکہ اس کے منکسر اجزاء بصورت اعداد مخصوصہ وجود میں آ رہے ہیں (واضح رہے کہ ایک ہی وقت میں محفوظ ہونا اور نظر آنا ضروری نہیں) اور اسکرین پر ظہور کی حقیقت منکسر اجزاء کی ترتیب و تنظیم ہے تصویر سازی نہیں اسی طرح نہ اخذ صورت کے وقت صورت سازی پائی گئی اور نہ سکرین پر ظہور کے وقت پائی گئی تو صورت سازی کب ہوئی اور کیونکر ہوئی۔؟
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
ابتداء کسی جاندار کے چہرے کے نقوش کو متفرق برقی ذرّات میں اس طرح محفوظ کرلینا کہ اس سے جب چاہیں مجتمعاً شکل و صورت میں دیکھا جاسکے یہ تصویر سازی ہے اور اس کے لیے جاندار کا کیمرے کے سامنے ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ایک دفعہ ان ذرات کو محفوظ کر لینے کے بعد دوبارہ سکرین پر دیکھنا تصویر سازی نہیں کیوں کہ دوبارہ دیکھنے کے لئے جاندار کی شکل کا سامنے ہونا ضروری نہیں جو کہ کیمرے کے ذریعے تصویر سازی میں ضروری تھا غرض بقاء کا حکم ابتدا کے حکم سے جدا ہے۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا تبصرہ:
بندہ کو اس بات سے فی الحال اتفاق مشکل معلوم ہو رہا ہے دیگر احباب بھی رائے دیں بندے کے خیال میں اسکرین سے ہٹنے کی صورت میں تصویر مستور ہی ہوتی ہے۔عدم اتفاق کی وجہ یہ کہ :
ایک عمل ایک وقت میں حفظ صورت ہے اور دوسرے وقت میں وہی عمل کسر صورت ہےفرق داخل فہم نہیں ہو رہا۔
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
اگر کوئی شخص جاندار کے چہرے کے مختلف حصے بنائے کہ اگر ان کو جوڑا جائے تو وہ تصویر بن جائیں اور دوسرا آدمی ان حصوں کو صرف جوڑ دیتا ہے پھر جدا کر دیتا ہے پھر جوڑ دیتا ہے ۔ھلم جرا
کیا دونوں کا فرق قابل فہم نہیں کہ اول صانع ہے اور دوسرا صرف جوڑ توڑ کر رہا ہے۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا تبصرہ:
”اول صانع ہے“سوال یہ ہے کہ اول صانع کس چیز کا ہے؟ صانع صورت /چہرہ ہے یا صانع اجزائے متفرقہ ہے؟
کیا متفرق اجزاء کے بنانے والے کو تصویر کا بنانے والا کہا جائے گا وما الدليل على ذلك؟
صرف آنکھ بنانا دوسری طرف صرف ناک اور جدا رخسار بنانا کیا اسے اصطلاحی صورت سازی کہا جائے گا؟
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
جہاں اجزاء بنائے ہی اس طرح ہوں کہ جوڑنے والا ان کو جوڑ کر جب چاہے تصویر مکمل کرلے وہاں اسے صانع صورت کہاجائے گا یہ صورتیں چونکہ نئی ہیں اس لئے یہ میرا خیال ہے ہوسکتا ہے تلاش کرنے پر کوئی دلیل بھی مل جائے باقی رہا صرف آنکھ یا صرف ناک بنانا یہ عمل سابقہ صورت سے مختلف ہے اس لئے ایسا عمل کرنےوالےکو صانع صورت نہ کہا جائے گا۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا تبصرہ:
اگر یہ بات ہےکہ متفرق اجزاء علی الترتیب بنانے ولا صانعِ صورت ہے باوجودیکہ وہ اجزاء مکمل صورت نہیں ہیں۔ تو پھر جہاں کسر اجزائے صورت اس طرح ہو کہ جوڑنے والا جب چاہے ان کو جوڑلے اسے مبقی صورت کیوں نہ کہا جائے گا بلکہ اس سے کسر صورت کی بجائےسترصورت کیوں نہ کہا جائے۔
مفتی عبداللہ صاحب کی رائے:
بندہ کی رائے ہے کہ محفوظ کرنے کی صورت خواہ ستر ہو یاکسر ہو سکرین پر ظاہر ہوگی وہ تصویر ہوگی عکس نہیں ہوگی۔لہذا سکرین پر اظہار کے وقت تصویر کو محفوظ کرنے کی صورت پائی جارہی ہے جوکہ” لاتدخل الملكة بیتا فيه کلب “الحدیث کے تحت داخل ہے ۔
[1] مفتی رشعيب احمد صاحب کی طرف سے جز دوم کا جواب
بنی ہوئی تصویر کو یا خود بنا کر اسے بلاضرورت قصداً محفوظ رکھنا ایک گناہ کو محفوظ کرنا ہے ،اس لیے جائز نہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسےبنی ہونا جائز تصوہر کو چھپا کررکھنا ۔ اگر کسی ضرور ت کی غرض سے محفوظ کی جائے یا ضمناً وتبعاً ہوجائے یا بغیر قصد کے محفوظ ہوجائے تو اس کا گنا ہ نہ ہوگا۔تاہم ان تصاویر کو بھی حتی الامکان مٹا دینا بہترہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے خارج میں اخبارات اور مصنوعات کے ڈبو ں پر موجود تصاویر۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا اس جواب پر تبصرہ:
قولکم :”جب تک وہ سکرین پر نظر نہیں آتی ان پر تصویر کا حکم نہیں لگتا “۔حکم نہ لگنے سےکیا مراد ہے؟کیونکہ تصویر سے جڑے احکامات مختلف ہیں ۔مثلاً صحۃ صلوۃ بحذائہ اور دخول ملائکہ رحمت وغیر ہ ۔کیا یہ مراد ہے یا کہ وہ تصویر ہی نہیں رہی بلکہ ختم ہوگئی ہے ؟
پہلا حکم یعنی صحت صلوۃ میں قادح یا دخول ملائکہ سے مانع نہ ہونے کا حکم لگنا تو مسلم ہے کیونکہ یہ دونوں احکام مکشوف او رمحترم تصویر سے وابستہ ہیں ۔کسی ایک علت کے فقدان سے حکم منتفی ہوجائے گا۔لیکن یہ کہ سکرین پرنظر نہ آنے کی صورت میں یہ تصویر ہی نہیں رہی یعنی استبقاء کے حکم میں بھی تصویر نہیں ہے۔یہ بات محل نظر ہے ۔یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ مستور ہوگئی یا مستور کی طرح ہوگئی یعنی فنی اعتبار سے اس کے مستور کرنے کا طریقہ حسی ستر سے مختلف ہےلیکن یہ کہ وہ معدوم ہو گئی یہ کہنا مشکل ہےکیونکہ اگر وہ معدوم ہو گئی ہے تو پھر اسکرین پر دوبارہ ظاہر کرنے کو صرف اظہار نہیں کہا جائے گا بلکہ اعادہ یا صنعت جدید کہا جائے گااور تصویر کو اسکرین پر ظاہر کرنے والا اسے بنانے والا شمار ہوگا۔ولا یقول بہ احد۔
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
نہ معدوم محض ہے کہ دوبارہ ظاہر کرنے کے لئے صنعت جدید کی ضرورت پیش آئے اور نہ محض مستور کی طرح ہے کہ ستر کے باوجود اپنی اصل شکل میں موجود رہتی ہو بلکہ بین بین کی صورت ہے یعنی اصلی شکل باقی نہیں رہتی البتہ اصل شکل کے ذرات باقی رہتے ہیں جو دوبارہ ظاہر کرتے وقت اصلی شکل تصویر میں نظر آتے ہیں خارج میں اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک تصویر کے مثلا چارٹکڑے کر دیے گئے جس کی وجہ سے وہ تصویر نہ رہی پھر انہی چار ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ دیا جائے یہ دوبارہ توڑنے کا عمل صنعت جدیدنہیں۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا تبصرہ:
”اس تقریر کا حاصل یہ ہے کہ تصویر جب اسکرین سے ہٹ گئی تو گویا منکسر ہوگئی کیونکہ خزانے میں اس کے ذرات ہیں تصویر بعینہ محفوظ نہیں ہے اس لئے اس پر بقاءصورت کا حکم نہ لگے گا اور جب سکرین پر ظاہر ہوئی تو منکسر اجزاء باہم جڑ گئے اس لئے یہ صنعت جدید نہ ہوئی بلکہ محض اظہار بصورت تکمیل ہوا“۔
اگر ڈیجیٹل تصویر کی حقیقت یہ ہے تو پھر ابتداءً ایسی تصویر بنانے پر عدم جواز بوجہ صنعت صورت کا حکم لگانا مشکل ہو گا کیونکہ جب تصویر بنائی جا رہی ہے تومکمل تصویر نہیں بن رہی بلکہ اس کے منکسر اجزاء بصورت اعداد مخصوصہ وجود میں آ رہے ہیں (واضح رہے کہ ایک ہی وقت میں محفوظ ہونا اور نظر آنا ضروری نہیں) اور اسکرین پر ظہور کی حقیقت منکسر اجزاء کی ترتیب و تنظیم ہے تصویر سازی نہیں اسی طرح نہ اخذ صورت کے وقت صورت سازی پائی گئی اور نہ سکرین پر ظہور کے وقت پائی گئی تو صورت سازی کب ہوئی اور کیونکر ہوئی۔؟
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
ابتداء کسی جاندار کے چہرے کے نقوش کو متفرق برقی ذرّات میں اس طرح محفوظ کرلینا کہ اس سے جب چاہیں مجتمعاً شکل و صورت میں دیکھا جاسکے یہ تصویر سازی ہے اور اس کے لیے جاندار کا کیمرے کے سامنے ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ایک دفعہ ان ذرات کو محفوظ کر لینے کے بعد دوبارہ سکرین پر دیکھنا تصویر سازی نہیں کیوں کہ دوبارہ دیکھنے کے لئے جاندار کی شکل کا سامنے ہونا ضروری نہیں جو کہ کیمرے کے ذریعے تصویر سازی میں ضروری تھا غرض بقاء کا حکم ابتدا کے حکم سے جدا ہے۔
مفتی شعیب احمد صاحب کا تبصرہ:
بندہ کو اس بات سے فی الحال اتفاق مشکل معلوم ہو رہا ہے دیگر احباب بھی رائے دیں بندے کے خیال میں اسکرین سے ہٹنے کی صورت میں تصویر مستور ہی ہوتی ہے۔عدم اتفاق کی وجہ یہ کہ :
ایک عمل ایک وقت میں حفظ صورت ہے اور دوسرے وقت میں وہی عمل کسر صورت ہےفرق داخل فہم نہیں ہو رہا۔
مفتی رفیق صاحب کا جواب:
اگر کوئی شخص جاندار کے چہرے کے مختلف حصے بنائے کہ اگر ان کو جوڑا جائے تو وہ تصویر بن جائیں اور دوسرا آدمی ان حصوں کو صرف جوڑ دیتا ہے پھر جدا کر دیتا ہے پھر جوڑ دیتا ہے ۔ھلم جرا
© Copyright 2024, All Rights Reserved