استفتاء
موبائل فون کے اندر الارم کے طور پر اذان کے کلمات کو لگانے کی حیثیت کیا ہے؟
ماہنامہ البلاغ محرم الحرام 1436ھ میں مذکورہ بالا مسئلے کے بارے میں جواز کا قول کیا گیا ہے، جبکہ بعض دیگر اہل علم اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ آنجناب سے مطلوب ہے کہ اس مسئلے میں شرعی رہنمائی فرما دیں کہ صحیح بات کیا ہے؟
رسالے کی نقل یہ ہے:
موبائل کے الارم میں اذان فیڈ کرنا
سوال: صبح کے وقت نماز وغیرہ کے اٹھنے کے لیے موبائل میں الارم گھنٹی کی جگہ اذان کا فیڈ کرنا کیسا ہے؟ تاکہ صبح اٹھتے ہی پہلی آواز جو کان میں آئے وہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کا نام ہو۔
جواب: نماز وغیرہ کے لیے الارم تذکیر میں داخل ہے اور تذکیر کی جگہ پر اذان کے کلمات فیڈ کر دیے جائیں تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، البتہ موبائل کی عام گھنٹی میں اذان کے کلمات فیڈ کیے جائیں گے، تو یہ اذان کا بے جا استعمال ہو گا اور اسے بے ادبی سمجھا جائے گا، یہی حکم گھڑیوں کا بھی ہے۔
ثم التثويب في كل بدلة علی ما يتعارفون إما بالتنحنح أو بقوله: الصلاة الصلاة أو قامت قامت لأنه الإعلام إنما يحصل بما يتعارفونه. (بدائع الصنائع: 1/ 368، زكريا)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
موبائل فون کے اندر الارم کے طور پر اذان کے کلمات کا لگانا جائز نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک مؤذن نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نماز فجر کے وقت بیدار کرنے کے لیے بطور تذکیر و تثویب “الصلاة خير من النوم“ كا كلمہ بولا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے یہ فرمایا کہ یہ کلمات اذان ہی کے لیے خاص رہنے دو، جب اذان کے ایک کلمہ کے لیے یہ حکم ہے تو پوری اذان کا بھی یہی حکم ہو گا۔
قال مالك: بلغنا أن عمر بن الخطاب جاءه المؤذن يؤذن لصلاة الصبح فوجده نائماً فقال المؤذن: الصلاة خير من النوم فأمره عمر أن يجعلها في ندآئ الصبح. (نسائي: 78) فقط و الله أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved