• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

موبائل میسج کے ذریعے سے طلاق

استفتاء

بیوی کا بیان

میرا شوہر شادی کے بعد سے تھوڑی تھوڑی بات پر مجھے طلاق کی دھمکی اور طعنہ دیتے رہتے، کبھی کہتے کہ "میں تجھے طلاق  دے دوں گا” اور کبھی کہتے کہ "میں تجھے چھوڑ دوں گا”، کبھی کہتے کہ "تجھے منٹ نہیں لگے گا” وغیرہ وغیرہ۔ بالآخر شادی کے چار ماہ بعد میں اپنی امی کی طرف تھی کہ تھوڑی سے بات پر میرے شوہر کو غصہ آ گیا اور انہوں نے مجھے مارا، ان کے جانے کے بعد میری امی نے میرے نانا ابو اور دوسرے گھر کے بڑے افراد کو یہ بات بتلا دی اور مجھے اپنے سسرال جانے سے منع کر دیا، بلکہ شوہر سے رابطہ کرنے سے بھی منع کر دیا اور مجھے کہ پہلے تیرے شوہر کے والدین اور بڑوں کو بلا کر یہ بات کرنی ہے پھر تم نے اپنے گھر جانا ہے، اسی دوران میرے شوہر کے کسی رشتہ دار کی شادی آ گئی اور میرے شوہر مجھے بار بار موبائل پر میسج کر کے پوچھتے رہے کہ تم نے شادی پر جانا ہے یا نہیں؟ لیکن میں نے کسی میسج کا جواب نہ دیا تو ان کو میسج کا جواب نہ دینے پر غصہ آ گیا (میرا اپنا اندازہ ہے کہ انہیں غصہ آ گیا تھا ورنہ انہوں نے نہ تو پہلے نہ ہی بعد میں غصہ کا اظہار کیا) اور غصہ میں مجھے آخری یہ میسج کر دیا کہ "جاؤ جو مرضی کرو تم میری طرف سے فارغ ہو”۔ میں نے اس کے بعد بھی کوئی جواب نہ دیا، اس کے بعد میرے بڑوں نے میرے شوہر کے گھر والوں کو بلا کر ساری بات بتلائی اور میرے شوہر کو دوبارہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے تنبیہ بھی کی اور کہا کہ ایسے الفاظ سے طلاق ہو جاتی ہے، پھر ہم دونوں کی صلح کرا دی اور مجھے میرے شوہر کے ساتھ گھر بھیج دیا، پھر مجھے میرے شوہر کہنے لگے کہ اگر ایک طلاق ہو گئی ہے تو دوسرے اور تیسری بھی دیدوں؟ یہ بات انہوں نے اب حال ہی میں بتائی ہے۔

میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا میرے شوہر کے ان الفاظ سے "جاؤ جو مرضی کرو تم میری طرف سے فارغ ہو” مجھے کوئی طلاق ہوئی یا نہیں؟

2۔ پھر اس واقعہ کے دو ماہ بعد عید الفطر کے دوسرے دن میرے شوہر مجھے اور اپنے سارے گھر والوں کے لے کر اپنے نانا ابو کے گھر گئے، ان کے نانا ابو کے گھر ہمارے علاوہ دوسرے رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے، اتفاق سے وہ دوسرے رشتہ دار میرے ابو کو جانتے تھے لیکن ان کو نہیں جانتی تھی، باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ*** کی بیٹی ہو، میں خاموش رہی، لیکن ان کے بار بار سوال کرنے پر میں نے بتلا دیا کہ جی ہاں میں*** کی بیٹی ہوں، تو انہوں نے باتوں باتوں میں میرے شوہر کو یہ کہہ دیا کہ علی آج بھابھی کی وجہ سے تمہارے عزت ہو رہی ہے، اس بات پر میرے شوہر کو غصہ آ گیا اور تھوڑی دیر بعد جب ہم اپنے گھر واپس آ گئے تو میرے شوہر مجھے کہنے لگے کہ تم نے ان سے بات کیوں کی، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے تو کوئی بات نہیں کی بلکہ وہی باتیں کرتے رہے، لیکن میرے شوہر کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور پھر جب ان کی والدہ یعنی میری ساس صاحب گھر آئیں تو میرے شوہر نے ان کو اپنے کمرے میں بلایا اور ساری بات بتلائی اور والدہ سے لڑتے رہے اور غصہ میں اپنی امی سے کہنے لگے کہ "اگر آج کے بعد اس نے کسی غیر محرم سے بات کی تو یہ میری طرف سے فارغ ہے”۔ اس کے بعد میں اپنے دیور اور دوسرے رشتہ داروں سے بات کر لی جو میرے لیے غیر محرم تھے۔ پہلے واقعہ اور اس کے درمیان عدت نہیں گذری تھی۔

میرا سوال یہ ہے کہ میرے ان غیر محرموں سے بات کرنے کی وجہ سے کیا مجھے طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

3۔ اس کے بعد میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مجھے ان دونوں مسئلوں میں ایک ایک طلاق ہو گئی ہے جیسے مجھے کسی نے بتلایا ہے تو کیا اب میرے شوہر کو رجوع کرنے بعد ایک طلاق کا حق باقی رہے گا یا دوبارہ تین طلاقوں کا حق مل جائے گا؟

شوہر کا بیان

میں نے اپنی اہلیہ کو کسی وجہ سے میسج کیا "تم فارغ ہو” جس میں میری نیت طلاق کی قطعاً نیت نہیں تھی اور نہ ہی مجھے اس بات کا علم تھا کہ اس طرح لفظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، اور اس وقت میں غصہ میں بھی نہیں تھا، میں اکثر دوستوں کے ساتھ"فار غ  ہے تو”لفظ استعمال کرتا تھا، میرا تھکیا کلام سمجھے لیں یا عادت سمجھ لیں، اس سے میری طلاق کی نیت سے فارغ کہنا ہرگز نہیں تھا اور مجھے منع بھی کیا کہ ایسے الفاظ اہلیہ کو نہیں کہتے، مگر اس سے طلاق واقعہ ہو جاتی ہے، مجھے کسی نے صاف لفظوں میں نہیں کہا، اگر مجھے صاف الفاظ میں بتا دیتے تو میں کبھی بھی دوبارہ یہ الفاظ اپنی اہلیہ کو نہ کہتا، میں مانتا ہوں کہ میں نے اپنی اہلیہ کو کہی دفع دھمکی ضرور دی ہو گی کہ میں طلاق دے دوں گا دھمکی دی مگر کبھی بھی طلاق نہیں دی، اور جب بھی دھمکی دی طلاق کے لفظ سے دی، کبھی بھی فارغ کے لفظ سے دھمکی نہیں دی، کیونکہ مجھے پتا ہی نہیں تھا فارغ کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے یا نہیں؟ دوسری مرتبہ میں نے اپنی اہلیہ کو اپنی والدہ کے سامنے یہ الفاظ کہے "اس نے اب غیر محرم سے بات کی تو فارغ ہے” جبکہ میں نے ان الفاظ سے بھی طلاق  کی نیت نہیں کی تھی، اور نہ ہی میرے علم میں تھا کہ ان الفاظ سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس کے دو تین دن بعد میری اہلیہ اپنے گھر چلی گئی اور اپنے گھر والوں کو یہ سارا معاملہ بتایا تو گھر والوں نے اس کو کہا کہ اس طرح دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، میری اہلیہ نے اپنے گھر والوں پر اعتبار کر کے مجھے میسج پر بتایا کہ آپ مجھے دو طلاقیں دیں چکے ہیں، اس وقت میرے پاؤں سے زمین نکل گئی اور ایک دو دن بعد میں اپنی والدہ کے ساتھ ان کے نانی کے گھر گیا، اس کے ماموں نے بھی یہی بتایا کہ ہمارے حساب سے دو طلاقیں ہو گئی ہیں اور پھر میں نے ان پر اعتماد کر کے کہ یہ شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں مان لیا کہ اس طرح دو طلاقیں ہو چکی ہیں، پھر ہم نے صلح کر نے کے لیے بہت منایا مگر کوئی نا مانا۔ ایک دن میرے والد صاحب کو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ "اگر آپ صلح چاہتے ہیں تو ہماری کچھ شرائط ہیں اس پر آپ کا بیٹا دستخط کر دیں تو ہم صلح کر لیں گے”، انہوں نے مجھے اور والد صاحب کو اپنے کارخانے میں بلا کر سوال کے ملحق سٹام پیپر کے بیان پر دستخط کروائے اور اگلے ہی دن میری اہلیہ کا فون آیا کہ جو آپ نے مجھے تیسری طلاق کا حق دیا ہے آج کے بعد میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں، اس وقت بھی جو میرے حالت ہوئی وہ صرف میرا اللہ ہی جانتا ہے، پھر میں نے سارا معاملہ مفتیان کرام سے بیان کیا تو مجھے تسلی ہوئی کہ تین طلاقیں نہیں ہوئی اور نہ ہی فارغ کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے، جب تک ان الفاظ میں طلاق کی نیت نہیں ہو، مجھے پھر بہت تسلی ہوئی، میں حلف اٹھا کر بھی کہہ سکتا ہوں کہ نہ ہی مجھے اس بات کا علم تھا فارغ کہنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اور نہ ہی میرے طلاق کی نیت تھی۔ جواب طلب امر یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اور اگر ہوئی تو کتنی ہوئی ؟ اور ایسی صورت میں رجوع کا حق ہے یا نہیں؟

پہلی مرتبہ جب "فارغ” کہا 11 مئی 2014 تھی، میرے اندازے سے اور دوسری مرتبہ جب میں نے "فارغ” کہا تب میرے اندازے سے 2 اگست 2014 تھی اور میری شادی جنوری 2014 کو ہوئی تھی۔

نوٹ: لڑکی کی کہنا ہے کہ میں نے یہ لفظ بھی کہے تھے کہ آپ نے مجھے جو تیسری طلاق کا حق دیا ہے اس کی بناء پر میں آپ سے علیحدگی اختیار کرتی ہوں۔ لڑکی اس پر حلف دینے کو تیار ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق بائنہ واقع ہوئی ہے، میاں بیوی چاہیں تو نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق ہو گا۔

توجیہ: شوہر کا میسج میں یہ لکھنا کہ "تم میری طرف سے فارغ ہو” طلاق مستبین غیر مرسوم ہے، جس سے شوہر طلاق دینے کی نیت کا اقرار کرے تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں، چونکہ شوہر اس لفظ سے طلاق کی نیت تسلیم نہیں کرتا، لہذا اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

دوسرے واقعہ میں شوہر کا یہ کہنا کہ "آج کے بعد اس نے کسی غیر محرم سے بات کی تو میری طرف سے فارغ ہے” کنایہ کی تیسری قسم ہے، جس سے نیت کے قرینہ غصہ کی وجہ سے طلاق بائن ہوتی ہے۔ لہذا جب بیوی نے غیر محرم سے بات کی تو ایک طلاق بائن ہو گئی اور نکاح ختم ہو گیا۔

منسلکہ دستبرداری نامہ میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جس سے بیوی کو طلاق کا حق مل گیا ہو کہ وہ اپنے اوپر کوئی طلاق واقع کر سکے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ دستبردار ہونے کا مطلب ہے چھوڑنا، ترک کرنا (فرہنگ آصفیہ) اپنے قانونی و شرعی حق کو بیوی کے حق میں چھوڑنا اور ترک کر دینا تفویضِ طلاق یعنی طلاق کا حق سونپنا نہیں ہے، کیونکہ عورت کو پہلے سے طلاق کا کوئی حق نہیں ہوتا کہ شوہر اس کے حق میں دستبردار ہو جائے بلکہ شوہر اس کو طلاق کا حق دیتا ہے۔

نیز "آج کے بعد اپنا طلاق لینے کا حق اپنی بیوی کو دیتا ہوں” بھی تفویض طلاق نہیں بن سکتا، کیونکہ مرد کو طلاق دینے کا حق حاصل ہوتا ہے، طلاق لینے کا نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved