• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

موبائل پر میسج کےذریعے نکاح کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کچھ عرصہ پہلے میرے ایک کلاس فیلونے مجھے میسج کیا …فلاں بن فلاں نکاح قبول ہے؟ اور میں نے غیر ارادی طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا ،ہاں لکھ دیا بعد میں نے ان میسج کے بارے میں نہ ہی میں نےکسی کو بتایا اورنہ ہی یہ میسج کسی کو دکھایا اور کچھ وقت کے بعد میں اس سب کو بھول گئی اور میری شادی کہیں اور ہونے والی تھی تو میں نے استخارہ کرالیا جس میں ایک جگہ سے ناں اور دوسری جگہ سے ہاں آیا ہے ۔

میں نے خود بھی استخارہ کیا مگر کچھ پتانہ چلاکہ کیا کرنا ہے ۔ تب میں نے اس میسج کو اس استخارہ کے جواب سے سمجھ لیا کہ کہیں میرا وہ نکاح ہو تو نہیں گیا جس کی وجہ سے اب استخارہ میں نہیں آیا پھر میں نے کافی علماء سے اس بارے میں پوچھا لیکن مجھے سکون نہ ملابس ہر وقت یہی وہم ہے کہ کہیں اس وقت وہ نکاح ہو تو نہیں گیا کہیں میں اس شادی سے گناہ گار تو نہیں ہوں گی؟کہیں روز محشرمیں اس معاملے کی وجہ سے پھنس تونہ جاؤں گی۔کہیں میں نے بحیثیت مسلمان اپنا فرض ٹھیک ادا کیا ہے؟

پلیز مجھے بتائیں کہ میں کس طرح ان خیالات سے خود کو نکالوں ،بہت مشکل ہو گئی ہے،ہر وقت میں اس بارے میں سوچتی ہوں ،سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح خود کو نارمل کروں ،میری مدد کریں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کا نکاح آپ کےکلاس فیلوکےساتھ نہیں ہوا[1]، کیونکہ مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول تحریر (میسج) کے ذریعے کیا گیاتھا اور جب ایجاب وقبول تحریر کے ذریعے کیا جائے تو نکاح کے صحیح ہونے کے لئے دیگر شرائط کے علاوہ یہ بھی شرط ہے کہ جس کے پاس ایجاب کی تحریر پہنچے وہ گواہوں کے سامنے اس تحریر کو پڑھ کر سنائے اور کہے کہ میں نے فلاں بن فلاں (ایجاب کی تحریر لکھنے والے) سے نکاح قبول کیا ،مذکورہ صورت میں چونکہ یہ شرط نہیں پائی گئی ، اس لیے مذکورہ صورت آپ کا نکاح اس کلاس فیلوسے نہیں ہوا۔

[1] امدادالاحکام جلد 2 صفحہ 220 میں ہے:

سوال : اگر مرد عورت سے بہ رضامندی یہ تحریر لکھوائے کہ تو میرا خاوند ہے یا مجھ کو تجھ سے نکاح منظور ہے پھر مرد اس تحریر کو دو آدمیوں کو دکھا دے تو کیا نکاح ہو جائے گا جبکہ دونوں آپس میں رضامند ہوں اور رضامندی سے تحریر لکھوائی گئی ہو اور اس صورت میں کیا عورت کو اپنا نام یا پورا پتہ تحریر مذکورہ میں لکھنا چاہیے یا یونہی فقط خالی دستخطی تحریر سے نکاح ہو جائے گا جو کچھ شریف میں حکم ہو بہت جلد جواب دیں الجواب:اس صورت میں نکاح درست نہ ہو گا جب تک مرد یہ بیان نہ کرے کہ فلاں عورت نے جو فلاں کی بیٹی ہے ہے میرے پاس یہ خط لکھا ہے جس میں وہ مجھ سے نکاح کو منظور کرتی ہے میں بھی اس نکاح کو قبول کرتا ہوں اور یہ سب بیان دو گواہوں کے سامنے ہو اور ان کے سامنے عورت کا پتہ اس طرح بیان کیا جائے جس سے وہ ممتاز ہو جائے صرح به في الدر والشامى والخلاصة والله اعلم.

امدادالاحکام جلد 2 صفحہ 227 میں ہے:

سوال: بعد از نیاز و آداب و السلام علیکم عرض ہے کہ اگر کوئی عورت بالغہ بیوہ ایجاب اپنے ہاتھ سے اس طرح لکھ کر مرد کو دیدے کہ مسمات فلانہ یعنی کاتبہ آپ  کا نکاح مسمی فلاں یعنی مکتوب الیہ سے کیا بایں قدر مہر پھر مکتوب الیہ وہ ایجاب دو گواہوں کو پڑھ کر سنا دے اور اپنا قبول بھی ان کو سنا دے تو یہ نکاح منعقد ہو جائے گا ؟یا نہ ؟ حضرت بندہ نے علماء سے سنا ہے یا کسی کتاب میں دیکھا ہے کہ کتابت بمنزلہ کلام کے ہے جب ایسا ہے تو سامعین کلامھما معاً جو کہ شرط انعقاد نکاح کا ہے متحقق ہو گیا تو چاہیے کہ نکاح بھی متحقق ہو جاوے۔

الجواب : ہاں اسطرح نکاح صحیح ہوجاتا ہے جبکہ خط سنا کر اپنا قبول شاہدین کے سامنے بیان کر دے۔

"و سماع الشاهدين كلام المتاقدين شرط انعقاد النكاح فلو قرأت الكتاب على الشهود و قالت ان فلانا كتب الى يخطبنى فاشهدوا انى قد زوجت نفسى منه صح النكاح . وان لم تقرأ الكتاب وقالت قد زوجت نفسى منه بمحضر من الشهود لا ينعقد النكاح فان الشهود لم يسمعوا كلام الزوج كذا فى الخلاصة(48-49 جلد 2)

عالمگیری جلد 1 صفحہ 269 میں ہے :

  وَلَوْ قَالَتْ: إنَّ فُلَانًا كَتَبَ إلَيَّ يَخْطُبُنِي فَاشْهَدُوا أَنِّي قَدْ زَوَّجْتُ نَفْسِي مِنْهُ صَحَّ النِّكَاحُ؛ لِأَنَّ الشُّهُودَ سَمِعُوا كَلَامَها بِإِيجَابِ الْعَقْدِ وَسَمِعُوا كَلَامَ الْخَاطِبِ بِإِسْمَاعِهَا إيَّاهُمْ هَكَذَا فِي الذَّخِيرَةِ وَلَوْ كُتِبَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ لَا يَنْعَقِد.

فتح القدیر جلد 3 صفحہ 182 میں ہے:

فلو كتبا الايجاب و القبول لا ينعقد .

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved