- فتوی نمبر: 8-210
- تاریخ: 11 فروری 2016
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
کیا ایک موبائل کے بدلے دو موبائل لیے جا سکتے ہیں؟ اگر دونوں طرف ایک ہی ماڈل اور ایک کمپنی کے ہوں، تو کیا حکم ہے؟ اور اگر ماڈل مختلف ہو تو کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایک موبائل کے بدلے میں دو موبائل خریدنا جائز ہے۔ خواہ موبائل فون کی کمپنی اور ماڈل ایک ہو یا مختلف ہو، کیونکہ دونوں
صورتوں میں موبائل فون نہ تو موزونی اشیاء میں داخل ہے، اور نہ ہی کیلی اشیاء میں داخل ہے۔ یعنی اس میں قدر مفقود ہے۔ لہذا موبائل کی کمی، زیادتی کے ساتھ خرید و فروخت جائز ہے۔
البتہ اگر کمپنی اور ماڈل ایک ہو تو دونوں طرف سے موبائل فون پر قبضہ یا موبائل فون کی تعیین ضروری ہے۔ تعیین خواہ اشارے سے ہو یا کسی اور ذریعہ سے ہو۔ کیونکہ اس صورت میں دونوں موبائلوں کی جنس ایک ہے۔ اور جنس کے ایک ہونے کی صورت میں دونوں بدلوں کا متعین ہونا ضروری ہے۔ اور تعین قبضہ سے بھی ہو جاتا ہے، اور اشارے سے بھی ہو جاتا ہے۔ اور اگر کمپنی یا ماڈل مختلف ہو تو پھر ایک طرف سے موبائل کی تعیین یا قبضہ ضروری ہے۔ تاکہ ’’بیع الکالی بالکالی‘‘ لازم نہ آئے۔
في رد المحتار:
قوله (فليس الذرع و العد بربا) أي بذي ربا أو بمعيار ربا فهو على حذف مضاف و الذرع و العد بمعنى المذروع و المعدود لا يتحقق فيهما رباً، و المراد ربا الفضل لتحقق ربا النسيئة فلو باع خمسة أذرع من الهروي بستة أذرع منه أو بيضة بيضتين جاز لو يداً بيد، لا لو نسيئة لأن وجود الجنس فقط يحرم النساء لا الفضل. (7/ 418)
و في الدر:
و إن وجد أحدهما أي القدر وحده أو الجنس حل الفضل و حرم النساء و لو مع التساوي حتى لو باع عبداً بعبد إلى أجل لم يجز لوجود الجنسية. (7/ 423)
و فی الدر:
و المعتبر تعيين الربوي في غير الصرف بلا شرط تقابض. (7/ 430)
فلو كان كل نسيئة يحرم أيضاً لأنه بيع الكالي بالكالي. (7/ 422)
و إذا تبايعا كيلياً بكيلي أو وزنياً بوزني كلاهما من جنس واحد أو من جنسين مختلفين فإن البيع لا يجوز حتى يكون كلاهما عيناً أضيف إليه العقد. (7/ 431)
و في البحر الرائق:
و كذا يجوز بيع إناء من غير النقدين بمثله من جنسه يداً بيد نحاساً كان أو حديداً. (6/ 214)
باع ثوباً مروياً بمرويين جاز حاضراً، و لو باع عبداً بعد إلى أجل لا يجوز لوجود الجنس. (6/ 213) ………… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved