- فتوی نمبر: 3-379
- تاریخ: 03 فروری 2011
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
میرے والد صاحب کی ملکیت میں ایک مکان تھا جو ہم نے 50000 روپے میں فروخت کیا اس وقت میرے والد کی پہلی بیوی سے 2 بیٹے اور ایک بیٹی موجود ہیں۔ دوسری بیوی سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
اب 50000 روپے میں سے ہم نے اپنے والد ہی کی زندگی میں پہلی بیوی کے تینوں بچوں کو حصہ دینا چاہا تو اس وقت ایک بیٹے نے اپنا حصہ لے لیا اور ایک بیٹے اور ایک بیٹی نے حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ اور یہ والد صاحب کے سامنے ہی فیصلہ ہوا۔
بعد میں ان 50000 روپے میں مزید 50000 روپے دوسری بیوی سے جو تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ان میں سے ایک بیٹے نے شامل کیے اور اسطرح ایک لاکھ روپے کا مکان خریدا۔ اب بعد میں اس مکان پر میں ایک بیٹا دوسری بیوی سے نے اپنے والد ہی کی زندگی میں ایک لاکھ روپے لگا کر اوپر کی منزل میں ایک کمرہ بنایا اور اپنے والد کی زندگی کے بعد والدہ کی موجودگی میں اس پر مزید ایک لاکھ روپے لگا یا اور دوسرا کمرہ بنایا۔ یوں دو لاکھ روپے اس پر میں نے لگائے۔
اچھا یہ تو ایک لاکھ روپے میں مکان خریدا گیا تھا یہ مکان میرے والدہ نے میرے اور میرے اس بھائی کے نام رجسٹری کردی جس نے 50000 روپے اپنے پاس سے مکان خریدتے وقت شامل کیے تھے۔ اچھا اب 7 سال پہلے ہم نے اس مکان کی قیمت لگائی اس وقت یہ آٹھ لاکھ روپے قیمت لگی اور میں نے اپنے اس بھائی سے جس کے 50000 روپے شامل کیے تھے اس سے 400000لیکر الگ ہو گیا۔ اب بعد میں حال ہی میں میرے تیسرے بھائی نے اپنے حصہ کا مطالبہ کر دیا۔ اب اس مکان کی قیمت 15 لاکھ روپے لگی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ 1۔ اب اس کی تقسیم کس طرح سے ہوگی۔ 2۔ کیا میرے بھائی کے 50000 روپے اور جو میں نے دو لاکھ روپے اس پر لگائے ہیں وہ باپ کی ملکیت میں چلے گئے اور اس کا اب شرعی فیصلہ کیا ہوگا۔ 3۔ اور کیا وہ آٹھ لاکھ میں جو فیصلہ ہوا تھا اس وقت کسی دوسرے بہن بھائی سے کوئی حصے کے بارے میں طے نہیں ہوا تھا کہ ان کو اس 800000 کے حساب سے پیسے دینے ہیں۔ یا اب جو قیمت 1500000 لگی ہے اس میں سے ۔ اور والدہ ان دونوں فیصلوں سے بہت پہلے فوت ہوگئی تھیں، والد صاحب کی دونوں بیویاں فوت ہو چکی ہیں والد صاحب کی زندگی میں پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی۔ دوسری بیوی والدصاحب کی وفات کے بعد فوت ہوئیں۔ اب بہن بھائیوں کو موجودہ قیمت کے حساب پیسے دینے ہیں یا سابقہ حساب سے؟
نوٹ: اب پہلی بیوی سے جو بیٹی ہے اور جو بیٹا ہے جس نے پہلے حصہ نہیں لیا وہ اپنے حصے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جو رجسٹری دو بھائیوں کے نام کی وہ فقط کاغذی کاروائی کی حد تک تھی کوئی ملکیت میں دینے والے الفاظ ان دونوں کو نہیں کہے۔ اور میرے والد نے ہم دونوں بھائیوں کے نام جو یہ مکا ن کیا تھا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے والد کی پہلی بیوی سے جو ایک بیٹا تھا جس کو ہم نے حصہ دیا تھا اس وقت جو اس کا شرعی حصہ بنتا تھا وہ چھ ہزار اور کچھ تھا اور اشٹام پر لکھوایا وہ میرے والد کا نافرمان تھا اس لیے ہدیہ میرے والد نے ہمارے نام کیا پہلی بیوی سے جو دوسرا بیٹا تھا ا س کے پاس اس وقت اپنا ذاتی مکان تھا اس لیے اس نے حصہ لینے سے انکار کیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں والدہ کی زندگی ہی میں جس بیٹے کو پچاس ہزار میں سے اس کا حصہ دیدیا گیا وہ بیٹا اب میراث کا حقدار نہ ہوگا۔
2۔ جس بیٹے نے شروع ہی میں پچاس ہزار روپے مکان خریدنے میں شامل کیے وہ بیٹا اصل مکان کی آدھی عمارت اور آدھے پلاٹ کا حقدار ہو گا۔
3۔ جس بیٹے نے بعد میں ایک ایک لاکھ روپیہ لگا کر اوپر کمرے تعمیر کروائے ان کمروں کا حقدار صرف یہی بیٹا ہوگا۔
4۔ جب دو لاکھ لگانے والا بیٹا چار لاکھ روپے لیکر علیحدہ ہوگیا تو اصل مکان کی آدھی قیمت میں اس کے حصے اور اوپر تعمیر کردہ دو کمروں کی مالیت کا حقدار وہ بیٹا ہوگا جس نے اسے چار لاکھ روپے دیئے۔
5۔ لہذا اب اوپر کے دو کمرے چھوڑ کر صرف اصل مکان کی آدھی قیمت کو 704 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں 134 حصے اس بیوی کے ہر لڑکی کو اور 67 حصے ہر لڑکی کو ملیں گے جو شوہر کے بعد فوت ہوئی ہے۔
البتہ جو لڑکا چار لاکھ لیکر علیحدہ ہوگیا تھا اس کے 134 حصے اس لڑکے کو مل جائیں گے جس نے چار لاکھ ادا کیے تھے یعنی اس کو 268 حصے ملیں گے۔ اور 112 حصے اس بیوی کے لڑکے کو ملیں جو شوہر سے پہلے فوت ہوگئی تھی اور 56 حصے اس کی لڑکی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
8×11=88×8=704
بیوی لڑکا لڑکا لڑکا لڑکا لڑکی لڑکی لڑکی
11×1 11×7
11 77
14×8 14×8 14×8 14×8 7×8 7×8 7×8
112 112 112 112 56 56 56
والدہ 8 مف11
لڑکا لڑکا لڑكا لڑکی لڑکی
11×2 11×2 11×2 11×1 11×1
22 22 22 11 11
112 112 112 56 56
134 134 134 67 67 فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved