• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

موجودہ حالات میں کرایہ و اجرت کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل ملک میں لاک ڈاؤن سے کاروباری مزاکر، دکانیں، کارخانے وغیرہ بند ہیں جس کی وجہ سے عوام آمدنی اور خرچہ کے بارے میں یکساں طور پر پریشان ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان حالات میں:

1۔ مالکان کے ذمے ملازمین کو تنخواہ دینا بنتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ملازم کا گذر تنخواہ پر ہے اور مالک تنخواہ دینے سے انکار کرے کہ کام ہی نہیں ہے، تو تنخواہ کہاں سے دوں۔ تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کس صورت میں کون گناہگار ہو گا اور کون نہیں؟

2۔ کرایہ دار کے ذمے مالک مکان و دکان و کارخانہ وغیرہ کو کرایہ دینا بنتا ہے یا نہیں؟ جبکہ مالک کا گذر کرایہ پر ہے اور کرایہ دار کرایہ دینے سے انکار کرے کہ کام ہی نہیں ہے، تو کرایہ کہاں سے دوں۔   تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کس صورت میں کون گناہگار ہو گا اور کون نہیں؟

مہربانی فرما کر قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ موجودہ حالات میں جب تک مالکان اور ملازمین کے درمیان عقد اجارہ باقی ہے اس وقت تک مالکان کے ذمے ملازمین کی تنخواہ ہے، اگر مالکان سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس تنخواہ دینے کی فی الحال گنجائش نہیں تو جب گنجائش  ہو جائے اس وقت دیدیں۔ اگر مالکان، ملازمین کو بتا کر عقد اجارہ ختم کر دیں تو اس کے بعد مالکان کے ذمے ملازمین کی تنخواہ نہیں رہے گی۔ الا یہ کہ ایسی صورت میں ایک ماہ کی زائد تنخواہ دینے کا عرف ہو یا قانون ہو۔

اور اگر گورنمنٹ مالکان کو پابند کرے کہ وہ عقد اجارہ ختم نہ کریں اور ملازمین کی تنخواہیں بدستور دیتے رہیں تو ایسی صورت میں بھی مالکان تنخواہ دینے کے پابند ہیں اور ایسی صورت میں اگر اپنے پاس تنخواہ دینے کی گنجائش نہ ہواور گورنمنٹ کی کوئی اسکیم ہو تو اس سے فائدہ اٹھانے کی بھی گنجائش ہے۔

2۔ مکان تو ویسے بھی استعمال میں ہے اور دکان یا کارخانہ اگرچہ فی الحال نہ چل رہا ہو لیکن چونکہ ابھی تک قبضہ و تصرف کرایہ دار کے پاس ہے اور کرایہ داری بھی ختم نہیں ہوئی، اس لیے مالک کرائے کا حقدار ہے، تاہم موجودہ حالات کی وجہ سے اگر مالک حسن سلوک کا معاملہ کرے اور سرے سے کرایہ نہ لے یا جانبین کسی رعایتی مقدار پر سمجھوتہ کر لیں تو بہت مناسب اور باعث اجر ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved