• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

منی چینچ کے کاروبار میں شراکت۔ اور فراڈ کی صورت میں رقم پوری کرنے کی ذمہ داری لینا

استفتاء

میری ذمہ داریاں

1۔ حوالہ کے مذکورہ بالا کام میں، میں اپنےد وست کے ساتھ کام میں برابر کا شریک بنوں گا، ہم دونوں دفتر میں بیٹھ کر کمپیوٹر پر سارا حساب کتاب رکھیں گے۔

2۔ چونکہ اس کام میں باہر بیٹھے ہوئے نمائندوں پر سارا دارو مدار ہوتا ہے لہذا اگر نمائندہ  امانت کے ڈالر وصول کرنے کے بعد بے ایمان ہو جائے اور اپنا پتا اور رابطہ نمبر تبدیل کر لے تو پاکستان میں بیٹھے ایک چھوٹے منی چینجر کے لیے دیگر ممالک میں موجود افراد کو تلاش کرنا، پھر ان سے اپنے پیسے نکلوانا (جبکہ حکومتی نگاہ میں غیر قانونی کام ہونے کی وجہ سے شنوائی بھی مشکل ہے) تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے منی چینجر اعتماد والے نمائندے تلاش کرتا ہے۔

میرے گھر کے افراد چونکہ دنیا کے مختلف ممالک میں سیٹلڈ ہیں، اس لیے میرا دوست چاہتا ہے کہ میں اس کے ساتھ کام میں شریک ہو کر اپنے گھر كے افراد کو اس کا نمائندہ بناؤں۔ جب نمائندے میرے گھر کے افراد ہوں گے تو اگر خدانخواستہ کل کو کوئی فرد امانت والے ڈالر وغیرہ لے کر غائب ہو گیا تو یہاں میری ذمہ داری ہو گی کہ امانت کے ڈالر پورے کروں۔

3۔ مذکورہ بالا نقصان کے علاوہ اگر کوئی نقصان ہو گا تو وہ ہم دونوں کا مشترکہ ہو گا۔

کیا میری شراکت شرعاً درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کی اپنے دوست کے ساتھ مذکورہ شراکت درست ہے۔ لأنها شركة الأعمال.

البتہ یہ بات کہ ’’اگر کوئی فرد ڈالر لے کر غائب ہو گیا تو میری ذمہ داری ہوگی کہ امانت کے ڈالر پورے کروں‘‘،

اس کا اگر یہ مطلب ہے کہ اس صورت میں وہ ڈالر میں اپنی جیب سے دینے کا ذمہ دار ہوں گا، تو یہ جائز نہیں، البتہ بغیر ذمہ داری کے آپ اپنی خوشی سےدینے کو تیار ہوں تو ٹھیک ہے۔

اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ میں خود تو اپنی جیب سے نہ دوں گا، البتہ اپنے اس رشتہ دار سے جو ڈالر لے کر غائب ہو گیا، یہ ڈالر دلوانے کا ذمہ دار ہوں، تو یہ بات جائز ہے۔

( و ) لا تصح [أي الكفالة] ( للشريك بدين مشترك ) مطلقا ولو بإرث ؛ لأنه لو صح الضمان مع الشركة يصير ضامنا لنفسه ولو صح في حصة صاحبه يؤدي إلى قسمة الدين قبل قبضه وذا لا يجوز. نعم لو تبرع جاز. (شامي: 7/635)

ولا [تصح الكفالة: از ناقل] بمبيع … ومرهون وأمانة بأعيانها، فلو بتسليمها صح في الكل، ورجحه الكمال فلو هلك المستأجر مثلاً لا شيء عليه ككفيل النفس. قوله (فلو هلك المسأجر) بفتح الجيم. قال في الفتح: ولو عجز أي عن التسليم بأن مات العبد المبيع أو المستأجر أو الرهن انفسخت الكفالة على وزان كفالة النفس. (شامي: 7/630)

دوسری جگہ ہے:

وأما ما مر من صحة الكفالة بتسليم الأمانة فذلك في كفالة من ليست الأمانة عنده. (شامي: 7/650) ………………… فقط و الله تعالى اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved