• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مورث کااپنے وارث کو میراث نہ لینے پر مجبور کرنا

استفتاء

میری شادی رانی زے خان سے چھ سال پہلے ہوئی اس کی ایک پہلے بیوی بھی تھی اس سے چھ بچے بھی ہیں میرے بھی اسی شوہر سےدو بچے ہیں بڑا بیٹا ہے چھوٹی بیٹی ہے نکاح سے پہلے بڑے وعدے وعید کیے مگر ایک بھی پورا نہیں کیا اس کے کئی مکان ہیں جو کرائے پر دے رکھے ہیں اس کے باوجود کئی کئی مہینے تک مکان کا کرایہ نہیں دیتا مجھے کرائے کے مکان میں رکھا ہوا ہے جب سے شادی ہوئی ہے ایک رات بھی میرے یہاں نہیں رہا کئی کئی دن کے بعد آتا ہے اور صرف دن کاایک یا آدھ گھنٹہ میرے پاس ٹائم گزارتا ہے ایک سال تک اس نے خرچ ٹھیک دیا ہے اس کے بعد خرچہ بھی پورا نہیں دیتا میں بہت پریشان رہتی ہوں رو رو کرخر چہ دیتا ہےوہ بھی پورا نہیں دیتااکثر اوقات لوگوں سے قرض لے کر مشکل سے گزارہ کرتی ہوں اب یہ کہتا ہے کہ میرا بیٹا مجھے مجبور کرتا ہے کہ بیوی سے لکھوا کر لاؤ کہ میں تمہاری جائیداد میں سے کچھ نہیں لوں گی اور نہ ہی زندگی میں کبھی کسی قسم کا دعوی کروں گی مجھے یہ بھی کہتا ہے کہ بڑا بیٹا کہتا ہے کہ اگر تمہاری بیوی تمہارےساتھ مخلص ہے تو لکھ کر دےدے مگر مجھے لکھ کر دیتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہیں مجھے طلاق ہی نہ دے دے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کو لکھ کر دے دو ایسا نہ ہو اس کو بہانہ بنا کر کام ختم کردے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں بعض میرے ہمدرد یہ مشورہ دیتے ہیں کہ لکھ کر نہ دینا بچوں کا حق نہ مارو گنہگار ہو جاؤ گی آپ ہی مجھے مشورہ دیں کہ کیا کرنا چاہیےمیں چاہتی ہوں کہ مجھے ایسی باتیں لکھ دیں جو میں اس کودکھاؤں تو شاید اس کے دل میں خدا کا خوف آ جائے اور اس کا دل بدل جائے اللہ تو سب کچھ کرسکتا ہےمیری دوست کہتی ہے کہ کسی کو حق سے محروم کرنا قانونی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی بالکل نا جائز ہے خدا کے لئے ایساظلم بچوں پر نہ کرنا

سائلہ بنت فتح محمد

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر بیوی وراثت نہ لینے کی تحریر لکھ بھی دے توپھر بھی شریعت کے اعتبار سےوراثت میں اس کااور اس کےبچوں کا حق ختم نہ ہوگا ،کیونکہ وراثت ایسا حق ہے کہ وارث اگر لکھ بھی دے کہ میں میراث سے اپنا حق وصول نہیں کروں گا پھر بھی اس کا حق  شرعاًختم نہیں ہوتا بلکہ برقرار رہتا ہے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد نمبر 17 صفحہ 372 میں ہے:

قال في الأشباه: لو قال الوارث: ترکتُ حقي لم یبطل حقه قال الحموي قوله (لو قال الوارث: ترکتُ حقي الخ)اعلم أن الإعراض عن الملک أو حق الملک ضابطه أنه إن کان ملکًا لازمًا لم یبطل بذلک کما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: ترکتُ نصیبی من المیراث لم یبطل لأنه لازم لا یترک بالترک……کيونکہ حق میراث اختیاری نہیں ہے بلکہ اضطراری ہے۔

کما فی الدر المختار کتاب الفرائض والثالث إما اخیتاري وهو الوصیة أو اضطراري وهو المیراث  پس اگر کوئی وارث اپنے حصہ سے دستبردار ہوجائے یا یہ کہے کہ میں مالک اپنے حصہ شرعیہ کانہیں ہوں یا نہیں ہوناچاہتا ہوں تو وہ مالک ہوگا اوراس کاحق اورحصہ ترکہ میں ہوگا۔

امداد الفتاوی جلد نمبر 4 صفحہ 364 میں ہے:

۔۔۔۔۔کیونکہ وراثت ملک اضطراری وحق شرعی ہے بلاقصد مورث ووارث اس کا ثبوت ہوتا ہے۔قال الله تعالى يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين الآيه اور لام استحقاق کے لئے ہے پس جب اللہ تعالی نے حق وراثت مقرر فرما دیا اس کو کون باطل کر سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved