- فتوی نمبر: 9-101
- تاریخ: 14 جون 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ہمارے والد صاحب کا انتقال 1990ء میں ہوا۔ بڑا بھائی ان کے ساتھ دکان پر کام کرتا تھا جسے وہ صرف خرچہ دیا کرتے تھے۔ کاروبار میں ترقی میں بھی بڑے بھائی کا کردار رہا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد بھائی نے ہی کاروبار سنبھالا گھر کے خرچے بھی ہوتے رہے اور چھوٹے دو بھائیوں کی تعلیم اور شادیاں بھی، اور دو بہنوں کی شادیاں بھی اس کے منافع سے اور کچھ پراپرٹی بھی خریدی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ کاروبار اور اس پراپرٹی میں کس کس کا حق ہے اور کتنا ہے؟ والد صاحب کا ایک مکان بھی ہے جس میں والدہ رہائش پذیر ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں کاروبار، پراپرٹی اور وہ مکان جس میں والدہ رہائش پذیر ہیں ان سب میں سارے بہن بھائی اپنے اپنے شرعی حصوں کے بقدر شریک ہوں گے۔ البتہ والد کی وفات کے بعد بڑے بھائی نے جتنے عرصہ محنت کی ہے اسے اس عرصے کی اجرت مثل علیحدہ سے بھی ملے گی۔ اجرت مثل سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کا کام کرنے پر اگر کسی کو ملازمت پر رکھا جاتا تو اسے ماہانہ جتنے پیسے دینے پڑتے وہ اجرت مثل ہے۔
لہذا مرحوم کے کل ترکہ میں سے بھائی کی اجرت مثل کو نکال کر باقی ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کر کے 8 حصے بیوی کو، 14-14 حصے ہر بیٹے کو، اور 7-7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
8×8= 64
بیوی 3 بیٹے 2 بیٹیاں
8/1 عصبہ
1×8 7×8
8 56
8 14+14+14+14 7+7
امداد الاحکام (3/ 335) میں ہے:
’’سوال: وراثت کا روپیہ قبل تقسیم ہونے کے کسی شریک نے بلا اطلاع دوسرے شریک کے کسی کو مضاربت پر دے دیا اور مضارب نے اس میں کچھ تصرف کیا مال خرید کر بیچا اور نفع بھی ہو گیا تو يہ مضاربت صحیح ہوئی یا نہیں؟ اور جو نفع ہوا ہے مضارب اس میں سے نصف نفع مقررہ لینے کا مستحق ہے یا نہیں؟
جواب: جس شریک نے مضاربت پر روپیہ دیا ہے نفع مقررہ اس کی ملک تو ہو گیا لیکن اس میں سے فقط اپنے حصہ وراثت کے مطابق اس کو حلال ہے اور باقی نفع خبیث ہے اس لیے دوسرے ورثاء کو بقدر ان کے حصص دے دے یا محتاجوں کو دے دے۔
لو تصرف أحد الورثة في التركة المشتركة و ربح فالربح للمتصرف وحده كذا في الغياثية و فيه أيضاً بعد أسطر: سئل أبو بكر عن شريكين جن أحدهما و عمل الآخر بالمال حتى ربح أو وضع قال الشركة بينهما قائمة إلى أن يتم … إطباق الجنون عليه فإذا قضى ذلك يتفسخ الشركة بينهما فإذا عمل بالمال بعد ذلك فالربح كله للعامل و الوضيعة عليه و هو كالغصب بمال المجنون فيطيب له من الربح حصة ماله و لا يطيب له من مال المجنون فيتصدق به كذا في المحيط. قال الشامي: و في القهستاني و له أن يؤديه إلى المالك و يحل له التناول لزوال الخبث.(5/ 184)‘‘…………………. فقط و لله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved