• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مورث کی زندگی میں وراثت کے احکام

استفتاء

میں نے اپنے بڑے بیٹے محمد** کی دینی مدارس سے اس کی دینی تعلیم و تربیت شرعی نقطہ نگاہ سے کی۔ مدرسہ سے فراغت کے بعد ایک سال کا تبلیغی دورہ بھی کروایا۔ اس کے بعد میں نے ایک دینی مذہبی گھرسے ایک باپردہ عالمہ لڑکی سے اس کی شادی کروائی۔ اور شادی میں مسنون آداب کا خیال رکھا۔ مگر شادی کے ڈیڑھ سال یا دو سال بعد اس نے مجھ سے میری جائیداد و اثاثہ جات سے اپنا حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ وہ بارہا اپنی ماں سے بھی بے ادبی سے پیش آتا رہا۔ غرضیکہ اس نے گھر کا سکون تباہ کردیا۔ لہذا میں نے اسے اپنے بندوبست کرنے کے لیے کہا وہ اپنا گھر بار علیحدہ لے اور ہماری جان چھوڑ دے۔ اب** کا مطالبہ ہے کہ مجھے میرا حصہ وراثت دیا جائے۔ اس بارے میں اس نے میرے بھائیوں اور اپنے سسر کو ساتھ ملا کر میرے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے میں نے اپنی شرعی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کی دینی تعلیم و تربیت کردی اور شادی کردی بلکی اسے حج کروایا مگر وہ اپنی بے ادبی گستاخی میں مزید بڑھ گیا۔ آپ شریعت کی رو سے یہ فرمائیں کہ:

۱۔ کیا** مجھ سے میری زندگی میں میری جائداد وغیرہ سے اپنا حصہ مانگ سکتا ہے؟

۲۔ یا کسی بھی عنوان سے میرے مال سے مجھے رقم دینے کے لیے پابند کرسکتا ہے؟

۳۔ میرے بھائی اس کے ساتھ مل کر اس کا حصہ وراثت دینے کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ان کا یہ فعل شریعت کی رو سے کیسا ہے؟ وہ مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ میں ان کی غمی خوشی میں شریک ہوتا ہوں اور انہیں سلام کرتا رہتا ہوں۔

۴۔ **نے اپنے سسر کے ذریعے میرے والد صاحب کو مجھ پر دباؤ ڈال کر رقم بٹورنے کی کوشش کی۔ کیا نا کا سسر صاحب کا یہ فعل جائز ہے؟

۵۔ اگر میں اس کو کچھ رقم دیتا ہوں تو کیا یہ رقم بعد از میری وفات میری وراثت سے منہا ہوسکتی ہے یا وہ ہدیہ کہلائے گی؟ جبکہ میں اسے عاق کرنا چاہتا ہوں اور ابھی تک میں نے کسی بچے کو کوئی حصہ نہیں دیا۔

میری چھ بیٹیاں ہیں اور دو بیٹے ہیں۔ پانچ بچیوں اور ایک ** کی شادی ہوچکی ہے ابھی ایک لڑکی اور ایک لڑکا کی شادی باقی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مورث کی زندگی میں مورث کے مال میں میراث کے احکام جاری نہیں ہوتے۔

۱۔ اس لی** کا اپنے والد کی زندگی ہی میں اپنے حصے کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔

۲۔ اور نہ ہی وہ کسی اور عنوان سے اپنے والد کو رقم دینے کے لیے پابند کرسکتا ہے۔

۳۔ بھائیوں کا یہ فعل درست نہیں۔

۴۔ سسر کا یہ فعل بھی جائز نہیں۔

۵۔ ہبہ کہلائے گی، البتہ عاق کرنے کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

تنبیہ: ان مسائل کا حل فتویٰ لینے سے نہیں نکلتا وہ تو اس وقت مفید ہوتا ہے جب دونوں پارٹیاں اپنے اپنے موقف پیش کر کے ایک فیصلے کو قبول کرنے کا وعدہ کریِں، لہذا کسی سمجھدار اور معاملہ فہم آدمی یا عالم سےمشورہ کر کے مسئلہ حل کریں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved