- فتوی نمبر: 28-361
- تاریخ: 19 فروری 2023
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہم موٹر سائیکل کی ایک سکیم شروع کررہے ہیں جس کا طریقہ درج ذیل ہے:
ہمارے پاس 100 ممبران ہیں اور 100 موٹر سائیکلیں ہیں جن کو ہم 30 ماہ میں فروخت کریں گے۔
فروخت کی صورت یہ ہوگی کہ ہم ہر ماہ تمام ممبران کے نام کی پرچیاں ڈالیں گے اور جس کا نام نکل آئے گا اس کو نقد موٹر سائیکل کی موجودہ قیمت پرایک موٹرسائیکل فروخت کریں گے اور وہ قیمت 5500 فی ماہ ادا کرے گا یعنی قیمت نقد والی ہو گی لیکن اس کی ادائیگی اقساط میں ہو گی ، موجودہ قیمت کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیس ماہ کے لیے موٹر سائیکل کی قیمت کو طے نہیں کرسکتے کیونکہ عین ممکن ہے کہ کچھ ماہ بعد موٹر سائیکل کی قیمت میں اضافہ ہو جائےلہذا جس ماہ کسی کی موٹرسائیکل کی پرچی نکلے گی اس کو ہم اس وقت کے نقد ریٹ کے مطابق موٹرسائیکل فروخت کریں گے اور وصولی اقساط میں کریں گے۔
جب 5 ماہ تک پرچیاں نکل آئیں گی تو 30 ماہ میں 100 موٹر سائیکلیں پوری کرنے کے لیے ہم چھٹے ماہ سے ہر ماہ 3 پرچیاں نکالیں گے اور اس میں جن ممبران کے نام نکلیں گے ان کو موجودہ قیمت پر موٹرسائیکل خرید کر قسطوں پر فروخت کردی جائے گی لیکن ان کو ریٹ قسطوں والاہی لگایا جائے گا( ان ممبران کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لیے سوال میں ان کو ایڈوانس والے ممبر سے تعبیر کریں گے)،یاد رہے کہ دوسری طرف ہر ماہ ایک پرچی والا سلسلہ بھی چلتا رہے گا اور ا س میں ایڈوانس والے ممبر کے نام بھی ڈالے جائیں گے اگر بالفرض ہر ماہ ایک پرچی والے سلسلے میں ایڈوانس ممبران میں سے کسی کا نام نکل آیا تو اس کو ایڈوانس ممبر سے نکال دیا جائے گا اور جس ماہ اس کا نام نکلے گا اس ماہ ایک موٹر سائیکل اس کو دے دی جائے گی اور جتنے روپے وہ ادا کرچکا ہو گا اس کو منہا کرکے بقیہ روپے اس سے وصول کیے جائیں گے ۔
ماہانہ قسط ہر ماہ کی 5تاریخ کو وصول کی جائے گی لیکن تاخیر کی وجہ سے جرمانہ وصول نہیں کیا جائے گا ۔
موٹر سائیکل کا اتھارٹی لیٹر کلیئرنس کی صورت میں جاری کیاجائے گا اور رجسٹریشن کی فیس کسٹمر خود ادا کریں گے ۔
موٹر سائیکل کی قیمت کا تعین اسی وقت ہو گا کہ جس وقت کسی ممبر کو موٹر سائیکل دی جائے گی۔
اگر کسی ممبر کی موٹر سائیکل نکلی لیکن وہ خریدنا نہیں چاہ رہا تو اس کو اجازت ہو گی کہ وہ موٹر سائیکل نہ خریدے بلکہ اپنی ادا کردہ رقم واپس لے لے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ سکیم جائز نہیں ہے۔
توجیہ: مذکورہ سکیم میں جن لوگوں کو ایڈوانس پر موٹر سائیکل دی جا تی ہے ان کو فروخت کی جانے والی موٹر سائیکلوں کا ریٹ حتمی نہیں ہوتا بلکہ اس کی قیمت دو شقوں میں دائر رہتی ہے کہ اگر اگلے تیس ماہ میں کسی مہینے اس کی ماہانہ لاٹری میں موٹر سائیکل نکل آئی تو اس کی موٹر سائیکل کی قیمت کم ہو گی (یعنی اس کو موجودہ نقد ریٹ پر موٹر سائیکل دی جائے گی جوکہ کم ہو گی ) اور ا گر نہ نکلی تو قیمت زیادہ ہو گی (کیونکہ اس صورت میں اس کو قسطوں والی قیمت ادا کرنا ہو گی) جبکہ شرعی لحاظ سے سودا کرتے وقت مبیع(جو چیز فروخت کی جائےاس ) کی قیمت کا حتمی ہونا ضروری ہے،حدیث میں کسی چیز کی قیمت کو دو شقوں میں دائر کرنےسے منع کیا گیا ہے۔
بحوث فی قضايا فقہیہ معاصرۃ (1/12) میں ہے:
«يقول الإمام الترمذي رحمه الله في جامعه: تحت حديث أبي هريرة رضي الله عنه: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: (أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإن فارقه على أحدهما، فلا بأس، إذا كانت العقدة على أحد منهماوحاصل قول الإمام الترمذي رحمه الله تعالى: أن علة النهي عن هذا البيع إنما هو تردد الثمن بين الحالتين، دون أن تتعين إحداهما عند العقد، وهذا يوجب الجهالة في الثمن، وليس سبب النهي زيادة الثمن من أجل التأجيل، فلو زالت مفسدة الجهالة بتعيين إحدى الحالتين فلا بأس بهذا البيع شرعا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved