• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

موضع دیول گڑھی بالا میں نماز جمعہ کے وجوب کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے  ہیں مفتیان ِ عظام  اس بارے میں کہ ہمارے گاؤں***کا ایک  دورافتادہ  گاؤں  ہے ۔  اور یہ گاؤں شہر سے 30 یا 40 کلومیٹر دور ہے۔اکثر لوگ نماز جمعہ پڑھنا چاہتے ہیں مگر چند ایک افراد تحریری جواز یا فتویٰ کے خواہشمند ہیں۔ موضع ہذا کے حالات تفصيلا درج کرتے ہیں۔ موضع ہذا  سڑک کے قریب واقع ہے۔ مذکورہ گاؤں  میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نماز عید ین جاری و ساری ہیں۔ قرب و جوار میں رہائش پزیر  لوگ  عیدین کی نمازوں   کیلے موضع ہذا آتے ہیں۔ موضع ہذا  کی کل آبادی تقریباً 2017ء کی مردم شماری کے مطابق  2032 ہے۔ تعلیم و تعلم   کے ساتھ وابستہ افراد کی کثیر تعداد یہاں موجود ہے ۔ کئی علماء و حفاظ قرآن اور طلبہ موضع ہذا سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعلیم القرآن کیلئے مدرسہ بھی موجود ہے۔ واضح رہے موضع  ہذا کی جامع مسجد کے علاوہ  تین محلوں  یعنی محلہ میرا  بانڈہ ، محلہ  جبئی  بانڈہ اور محلہ  پکراڑی میں بھی مساجد موجود ہیں۔ موضوع ہذا میں ایک جامع مسجد ہے  اگر گاؤں کے سارے لوگ بھی اس مسجد میں آجائیں  تو پھر بھی مسجد میں  کافی جگہ ہوتی ہے اور یہ جامع مسجد  عیدین کے موقع پر لوگوں سے بھر جاتی ہے   گاؤں میں تین  بوائز  پر ائمری  سکولز اور دو گرلز پرائمری سکولز موجود ہیں۔ جبکہ ہائی سکول آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر دیول گڑھی پایاں میں واقع ہے ۔ صحت و پانی اور بجلی کی  سہولتوں  سے موضع ہذا مستفید ہے۔ صحت کی بنیادی  سہولیات کیلئے تین چار  ہیلتھ ٹیکنیشن موجود ہیں ۔ ضروریات زندگی پورا  کرنے کیلئے موضع ہذا میں گیارہ  کریانہ سٹورز، ایک کراکری اور تین کپڑے اور سنیارے  کی دوکانیں ہیں۔ علاوہ  ازیں آٹا پیسنے کی مشین، پولٹری فارم، موٹر سائیکل مکینک ، الیکٹریشن مکینک، پلمبر  اور کارپنٹر  جیسی سہولیات بھی میسر ہیں۔  موضع  ہذا میں چار ڈبل سیٹر گاڑیاں  ، چھ پک اپ   ، متعدد  ٹیکسی   گاڑیاں اور  بہت  سے موٹر سائیکل آمد ورفت کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ الغرض مذکورہ  گاؤں میں  پولیس چوکی نہیں ہے اس کے علاوہ   ضروریات کی ہر چیز مل جاتی ہے   موضع ہذا میں بہت سے ہنر مند افراد موجود ہیں لیکن زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ ہیں۔ اندرون و بیرون   ملک ملازمین بھی موجود ہیں۔ غلے  کے لحاظ سے موضع ہذا تقریباً خود کفیل ہے۔ لوگ زیادہ تر سبزیاں  اگاتے ہیں ۔علاوه از یں کئی ٹیلر ز بھی موضوع ہذا میں موجود ہیں۔

گاؤں کی مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتائیں کہ کیا اس گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں”دیول گڑھی بالا” میں جمعہ پڑھنا درست ہے۔

توجیہ: مذکورہ گاؤں میں چونکہ ضروریات زندگی کی تمام اشیاء موجود ہیں اور آبادی بھی دو ہزار سے زائد ہے جس کی وجہ سے یہ گاؤں قریہ کبیرہ ہے اور قریہ کبیرہ میں فقہائے کرامؒ کی صراحت کے مطابق جمعہ ادا کرنا درست ہے لہٰذا مذکورہ گاؤں میں جمعہ پڑھنا درست ہے۔

کفایت المفتی (236/3) میں ہے:

سوال:ضلع مظفر نگر میں ایک جگہ پھلت ہےجس کی موجودہ حالت حسب ذیل ہےکل تعداد اکیس سو آدمیوں کی ہےاشیائے ضروری دستیاب ہوجاتی ہیں چھ دکانیں پرچون کی ہیں دو بزاز کی دوعطار کی تین درزی کی۔پانچ چھ دکانیں اور متفرق ہیں دس گیارہ دکانیں قصابوں کی ہیں پانچ چھ حکیم ہیں،حافظ پندرہ بیس کے قریب ہیں ،مولوی پندرہ بیس کے قریب ہیں،ایک بازار ہفتہ وار یعنی پینٹھ ہوتی ہےچار مسجدیں ہیں،ایک ان میں سے جامع مسجد کے نام سے مشہور ہے یہ مسجد پہلے چھوٹی تھی لیکن جمعہ ہوتا تھا اور اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کی بنیاد حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ نے اپنے دست مبارک سے نصب فرمائی ہے جو بڑے پیمانے پر تیار ہے ایک مدرسہ اسلامیہ ہے جو فیض الاسلام کے نام سے موسوم ہے ،جفت فروش کی کوئی دکان نہیں ہے اور تھانہ،ڈاکخانہ،شفاخانہ،مدرسہ سرکاری ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے پھلت میں ایک عرصہ سے جمعہ قائم ہے جس کی ابتداء معلوم نہیں ہے ایک صاحب مسمیٰ حافظ احمد صاحب جن کی عمر چوراسی سال ہے وہ یہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ہوش سے یہاں جمعہ ہوتا دیکھ رہا ہوں………جو صاحب یہاں جمعہ نہیں پڑھتے وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک گاؤں میں جمعہ درست نہیں اور پھلت بھی گاؤں ہی ہے چونکہ آبادی تھوڑی ہے علیٰ ہذا القیاس بازار جس میں کل تیرہ دکانیں ہیں اور ایسی بستی جس میں تین ہزار آدمیوں سے کم ہوں اور بازار بھی نہ ہوں وہاں جمعہ درست نہیں ہے……….یہ امر دریافت طلب ہے کہ مقام مذکور میں بحالت موجودہ نماز جمعہ واعیاد عندالاحناف جائز ہے ہا نہیں؟

جواب:(از مفتی اعظمؒ)پھلت کی یہ حیثیت جو سوال میں مذکور ہے اس کوقریہ کبیرہ بنا دینے کےلیے کافی ہے اس لیے اس میں اقامت جمعہ جائز ہے ……

جواب(از نائب مفتی صاحب)موضع پھلت میں جمعہ کی نماز پڑھنی بنا بر فتویٰ متاخرین فقہائے حنفیہ کے جائز ہے ……….

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (41/5) میں ہے:

سوال: جس شہر میں تحصیل دار وغیرہ رہتے ہوں  اور اس کی  مردم شماری دوہزار یا اس کے قریب ہو ، اس کو مصر کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس کے نواح میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب: فقہاء نے تصریح کی ہے کہ بڑے قریہ اور قصبہ میں جمعہ واجب الاداء  ہے پس شہر مذکور  قریہ  کبیرہ میں داخل معلوم ہوتا ہے لہذا جمعہ اس میں اور  اس کے فناء   میں درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved