• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

معاہدے کی خلاف ورزی کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا کام یہ ہے کہ کپڑا خرید کر لباس تیار کرتے ہیں اور اسے بیرون ملک فروخت کرتے ہیں، ہم نے ایک پارٹی کو کپڑے کا آرڈر دیا ،یہ آرڈر ای میل کے ذریعے دیا گیا، جس میں کپڑے کا ریٹ، مقدار اور ڈیلیوری کی تاریخ لکھی گئی تھی اور قیمت کی ادائیگی کے لیے یہ طے ہوا کہ ڈیلیوری کی تاریخ کے سات سے دس دن تک کے اندر ادائیگی کی جائے گی، لیکن اس پارٹی نے مال اپنے مقررہ وقت سے ڈیڑھ مہینہ لیٹ کر دیا ۔

جس کی تفصیل یہ ہے کہ  مال مقررہ تاریخ کے پانچ دن بعد آیا، مگر ٹھیک نہ تھا تو واپس کردیا گیا ،دوبارہ رنگ کرکے آیا تو اس آنے جانے کی مدت تقریبا ڈیڑھ مہینہ تھی ۔اور مال کی قیمت کی ادائیگی کے بارے میں یہ طے ہوا تھا کہ ادائیگی کپڑا آنے کہ دس دن بعد کی جائے گی  مگررقم کی ادائیگی کپڑا دینے کے  76- 88 دن میں کی گئی اس دوران ہم وقتا فوقتاً ای میل کے ذریعہ انہیں مطلع کرتے رہے کہ اگر باہر والی پارٹی نے اس تاخیر کی وجہ سے ہم پر کوئی جرمانہ عائد کیا تو ہم وہ آپ پر ڈال سکتے ہیں، تاہم اس وقت سپلائر پارٹی نے ہاں یا نا میں کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اب جب مال باہر والی پارٹی کو بھجوانا تھا تو باہر والی پارٹی نے کہا کہ چونکہ آپ نے مال مہیا کرنے میں تاخیر کر دی ہے ،اب یہ مال آپ بحری جہاز سے نہیں بھیجیں گے بلکہ ہوائی جہاز پر بھیجیں گے، جبکہ ہوائی جہاز کا خرچہ فی گارمنٹ سو روپے اور بحری جہاز کا خرچہ 20روپے تھا تو اس حساب سے ایک نقصان تو یہ ہوا کہ ڈیڑھ لاکھ روپے زائد ادا کرنے پڑے ،کیونکہ بنابر تاخیر ہمیں مجبورا جہاز پر بھیجنا پڑا ،دوسرا نقصان یہ ہوا کہ باہر والی پارٹی نے ہم سے ڈسکاؤنٹ مانگا اور ہمیں کل مال کی پیمنٹ میں سے 985 ڈالر کم دیئے کہ آپ نے مال لیٹ کیا ہے ،اس لئے ہم آپ کو پورے پیسے نہیں دیں گے یہ بھی تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے بنتے ہیں کل نقصان تقریبا تین لاکھ کا ہوا۔ ہم نے یہ تین لاکھ روپے اپنے سپلائر پارٹی کی پیمنٹ سے کاٹ لیے، سپلائر پارٹی کا کہنا ہے کہ 985 ڈالر جو کم ملے اس وقت ڈالر کی قیمت ایک سو پینتالیس روپے تھی اور باہر والی پارٹی کی ادائیگی کے وقت ڈالرکی قیمت 155 روپے ہوگئی تھی اور آپ کو جو نقصان کم پیمنٹ ملنے کی وجہ سے ہوا تھا وہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے پورا ہوگیا، لہذا آپ کا یہ نقصان حقیقت میں نہیں ہوا، اس لیے آپ ہماری کٹوتی نہیں کر سکتے، ہم نے ان سے کہا کہ ڈالر بڑھنے کی وجہ سے اگرچہ ہمارا نقصان پورا ہوگیا لیکن آپ کے لیٹ کرنے کی وجہ سے ہمیں تو کم ڈالر موصول ہوئے ،ڈالر کی قیمت کاتو کسی اور وجہ سے بڑھنا ہوا ہے، جس طرح ڈالر کی قیمت زیادہ ہوئی ہے تو یہ کم بھی ہوسکتی تھی ،کم ہونے کی صورت میں جو نقصان ہوتا اس سے آپ کا کوئی تعلق نہ ہوتا، اسی طرح زیادہ ہونے کی صورت میں ہمیں جو فائدہ ہوا آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

نیز رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے سپلائر پارٹی کو  مرابحہ کر کے کپڑا مہنگا خریدنا پڑا کیونکہ سپلائر پارٹی کا کام تو چلتا رہتا ہے دوسرے آرڈر آتے رہتے ہیں تو پیسے لیٹ آنے کہ وجہ سے انہیں دوسرے آرڈر کے لیے مہنگا کپڑا خریدنا پڑا

اب اس صورتحال کی روشنی میں چند سوالات درپیش ہیں:

1- ایک سوال یہ ہے کہ لیٹ ہونے کی صورت میں کسٹمر نے جتنے ڈالر کم دئیے، کیا ہم یہ کمی مذکورہ سپلائر پارٹی سے لے سکتے ہیں؟ ۔

2- دوسرا سوال یہ ہے کہ لیٹ ہونے کی وجہ سے ہمیں ہوائی جہاز کا اضافی خرچہ پڑا، کیا ہم اپنے سپلائر سے وصول کر سکتے ہیں؟جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ڈالر کے ریٹ بڑھنے کی وجہ سے ہمارا نقصان پورا ہوگیا  ہے اور اس سودے میں مجموعی طور پر ہمارا نفع تو کم ہوا ہے مگر ایسا نہیں ہوا کہ قیمت خرید سے کم میں فروخت کرنا پڑے

3- تیسرا سوال یہ ہےکہ سپلائر کے لیٹ کرنے کی وجہ سے ہماری مشینری اور مزدور فارغ رہے اور یہ نقصان بھی ہمیں ہوا ، کیا یہ نقصان ہم سپلائر پر ڈال سکتے ہیں؟ مزدور ٹھیکے پر ہیں انہیں کام نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں انہیں کوئی رقم نہیں دینی پڑی البتہ مینیجر وغیرہ لوگ تنخواہ پر ہیں ان کی تنخواہ دینی پڑی ہمارے پاس اس وقت اور کوئی آرڈر بھی نہیں تھا

4- چوتھا سوال یہ ہے کہ سپلائر پارٹی کا کہنا ہے کہ مال لیٹ ہونے کے بدلے میں آپ کی طرف سے ادائیگی بھی لیٹ کی گئی، جس کی وجہ سے کپڑے والے کو مال  ادھار پر خریدنا پڑا اور مرابحہ بھی کروانا پڑا جس کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے، اگر رقم وقت پر ادا کی ہوتی تو ہمیں یہ مہنگا مال نہ خریدنا پڑتا، بلکہ سستا خریدتے تو کیا سپلائرکی طرف سے اس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ سپلائر کا کہنا ہے کہ اگراس کامطالبہ نہیں کیا جاسکتا تو مال دیر سے پہنچانے کا نقصان جو کہ ڈالر کی بڑھوتری نے پورا کردیا کم از کم اس کا ہم سے  مطالبہ نہ کیا جائے، کوئی مطالبہ ہم نے آپ سے نہیں کیا، لہٰذا آپ بھی نقصان ہم پر نہیں ڈال سکتے۔ کیا سپلائر پارٹی کی یہ بات شرعاً قابل اعتبار ہے یا نہیں؟ نیز سپلائر  پارٹی کا کپڑا دوبارہ رنگوانے کی وجہ سے بھی نقصان ہوا ہے۔

مزید وضاحت:  دونوں پارٹیوں کا آپس میں سودا روپوں میں ہوا تھا اور دوسری پارٹی کا آگے باہر سودا ڈالر میں ہوا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ای میل کے ذریعے آرڈر دینا اور سپلائر کا اسے قبول کرنا یہ بیع نہیں  بلکہ وعدہ بیع ہے   اور اصول یہ ہے کہ وعدہ بیع کی صورت میں بر وقت سپلائی نہ دینے کی وجہ سے اگلی پارٹی کا جو حقیقی نقصان ہو اس کی تلافی سپلائر پارٹی سے کرائی جاسکتی ہے اس سے زائد کی نہیں حقیقی نقصان سے مرا د یہ ہے کہ جتنے میں اگلی پارٹی نے وہ مال خریدا ہے آگےاس سے بھی کم میں فروخت ہو مثلا جو چیز  100 روپے میں خریدی ہو وہ آگے 100 روپے سے بھی کم میں فروخت ہو اس اصول کے پیش نظر آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:

1۔2یہ دونوں نقصان چونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے پورے ہو چکے ہیں یعنی حقیقی نقصان نہیں ہوا اس لیے  اس کامطالبہ کرنا درست نہیں ۔

3۔کپڑا لیٹ آنے کی وجہ سے مزدور اور مشینری اگرچہ فارغ رہے لیکن کمپنی کو مزدوروں کو کوئی رقم نہیں دینی پڑی اور مینیجر وغیرہ کی تنخواہ کا کام ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں تھاانہیں تو تنخواہ ملنی ہی تھی ،اس لیے   یہ بھی کمپنی کا حقیقی نقصان نہیں ہوا  اس لیے اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ۔

4۔سپلائر پارٹی کو جو نقصان کپڑے دوبارہ رنگوانے کی وجہ سے ہوا وہ چونکہ ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوا اس لیے اس نقصان کو دوسری پارٹی سے پورا نہیں کروایا جاسکتا اسی طرح مرابحہ کرنے کا تعلق اس سودے سے نہیں ہے بلکہ وہ دوسرے سودوں کے لیے کیا گیا اس لیے اس  نقصان کی تلا فی بھی نہیں کروائی جاسکتی ۔

خلاصہ یہ  ہےکہ مذکورہ صورت میں  دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے کسی  نقصان کی تلافی نہیں کرواسکتیں۔

فقه البیوع (40\1)

ولکن العقد بین شخصین متباعدین سواء اکان بطریق التلکس والفاکس ام بطریق الهاتف او اجهاز الاسلکی انما یصح فیما لا یشترط فیه القبض فی مجلس العقد ۔۔۔۔۔۔ والا فیعتبر هذ االاتصال  الآلی مساومة اووعدا بالعقد یتم العقد فی وقت لاحق یتحقق فیه القبض المشروط

فقه البیوع (112\1)

والذی اجازہ العلماء المعاصرون عند الحاجة فی جعل الوعد ملزما ان یتحمل الخسارۃ الفعلیة التی اصاب الطرف الآخر بسبب التخلف وهوان یضطر الی البیع بسعر اقل من تکلفته بان یذهب الی السوق ویبیع القمح فیخسر فیه بمعنی انه کان اشتراہ بتسعمائة ولم یجد من یشتریه الا بثمانمائة فخسر مائة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved