• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مبتدی اور مجیب دونوں کی منت کی ایک صورت

استفتاء

اگر کوئی شخص بیمار ہو اور گھر کا دوسرا فرد یہ منت مانے کہ اگر "نام”صحت یاب ہو گئے تو ہم ایک ایک روزہ رکھیں گے۔ غائب مریض کو جب یہ بات بتائی گئی،تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے،لیکن بعد میں صحت یابی کے بعد دونوں افراد میں(یعنی مریض اور منت ماننے والے)مکمل طور پر علیحدگی ہو گئی۔

i۔ اب کیا دونوں کو روزہ رکھنا پڑے گا؟

ii۔مریض کا روزہ بھی منت ماننے والا رکھ سکتا ہے؟

iii۔مریض کو روزہ رکھنے کا کہہ دیا جائے،باقی اس کا معاملہ؟

iv۔اگر مریض کو کہنے کا موقع نہ مل سکے تو کیا کیا جائے؟

v۔          خود روزہ رکھے؟

vi۔چھوڑدے؟

غائب مریض اسلئے کہا کہ مریض کے سامنے یہ منت نہیں مانی تھی بلکہ اسے بعد میں بتایا گیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ صورت میں یہ منت دونوں کی ہو گی،اور دونوں کو صرف اپنی طرف سے ایک ایک روزہ رکھنا لازم ہو گا۔البتہ اگر دوسرے فریق کو بتانا ممکن ہو تو بتادیں ۔جیسا کہ شامی میں ہے۔

لو قال والله لتفعلن كذا فقال الآخر:نعم فهو علي خمسة اوجه۔احدها:ان ينوي كل من المبتدي والمجيب الحلف علي نفسه فهما حالفان،أما الاول فظاهر،وأما الثاني فلأن قوله نعم،يتضمن إعادة ماقبله،فكأنه قال:والله لأفعلن كذا۔ (5/ 720)

اور دوسری جگہ خانیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

قال:إن برئت من مرضي هذا ذبحت شاة،فبرئ لايلزمه شيئ إلا ان يقول: فلله علي أن أذبح شاة،وهي عبارة الدرر،وعللها في شرحه بقوله:لأناللزوم لايكون إلا بالنذر، والدال عليه الثاني لا الأول،فأفاد أن عدم الصحة لكون الصيغة المذكورة لا تدل علي النذر أي لأن قوله:ذبحت شاة،وعد لا نذر،ويؤيده ما في البزازية لو قال:إن سلم ولدي أصوم ما عشت،فهذا وعد، لكن في البزازية ايضا إن عوفيت صمت كذا لم يجب ما لم يقل: لله علي،وفي الاستحسان يجب ولو قال:إن فعلت كذا فأنا أحج،ففعل يجب عليه الحج(5/ 544)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved