- فتوی نمبر: 16-313
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > غصب و ضمان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ
میں نے 2009 میں سلیمان نامی شخص سے ایک عدد مکان خریدا جس کا بیعانہ مبلغ 10 لاکھ روپے ادا کیا گیا۔دوران تصدیق یہ بات سامنے آئی کہ متعلقہ مکان متنازعہ ہےاور سلیمان دھوکہ دہی کر رہا ہے۔
میں نے سلیمان سے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ سونے کا کام کرتاہے اور تمام رقم اس کے کاروبار میں لگی ہوئی ہے وہاں سے نکال کر واپس کر دے گااور پھر اچانک غائب ہوگیا ۔بہت تلاش کے بعد میں نے اس کے خلاف پولیس کیس کروادیا۔اور تقریبا 5سال کے عرصہ کے بعد وہ گرفتار ہواتو پنچایت کے معززین جو کہ سنار مارکیٹ کے عہدے دار تھےانہوں نے فیصلہ کیاکہ سلیمان مجھے آج کے سونے کے ریٹ کے حساب سے رقم واپس کریگا جو اس وقت تقریبا23 لاکھ بنی۔مگر میں نے اضافی رقم لینے سے انکار کر رکے اپنی اصل رقم اور جو مقدمہ ،عدالت وغیرہ میں خرچ ہوئے اس کا مطالبہ کیا،یہ سب تحریر کر کے معاہدہ کی شکل طے پایا۔اور سلیمان نے آدھے پیسے اسی وقت دیدیے ۔اور میں نے اس کو اس شرط پر جیل سے رہاکروایا کہ وہ باقی رقم مجھے 6 ماہ میں ادا کرے گا۔مگر سلیمان نے معاہدہ کی پاسداری نہ کی اور پھر سے روپوش ہوگیا۔میں نے دوبارہ سے اس کے خلاف پولیس کیس کیااور خود عرصہ دراز تک مختلف ذرائع سے اس کی منت سماجت کرتا رہا مگر سلیمان نے میری کچھ نہ سنی۔
اور پھر عرصہ 4 سال کے بعد گرفتار ہوگیا اب وہ بقایا رقم دینے کو تیار ہے ۔اس عرصہ میں جو کہ10 سال کے لگ بھگ ہے میں نے اس سے پولیس اخراجات ،عدالتی اخراجات ،اور مختلف اخراجات جوکہ اس کی تلاش میں اور مقدمات ہی میں لگے ان کا مطالبہ کیا جو کہ دونوں فریقوں کے باہمی مشاورت سے دو لاکھ طے پایا ہے۔
میں جاننا یہ چاہتاہوں کہ کیا شریعت کی رو سےمیں وہ دو لاکھ روپے لینے کا مجاز ہوں یانہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر واقعتا آپکے دو لاکھ خرچ ہوئے ہیں تو آپ دو لاکھ لے سکتے ہیں ورنہ جتنے خرچ ہوئے اتنے لیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved