• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مضاربت فاسد میں ضمان کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خالد بھائی نے جمیل بھائی کو مثلا 50لاکھ روپے مضاربت کے نام پردیے اور جمیل نے وہ تمام رقم 50لاکھ روپے زید کو مضاربت کے طور پر دیے نیز اس صورت میں جمیل اپنے بھائی سے بھی اور زید سے بھی نفع میں سے  مقررہ  نفع لے رہے ہیں ،اور مضاربت کا عقد تین ماہ کےلیے طے کیا گیا،اب تین ماہ بعد عقد مضاربت کی میعاد ختم ہوگئی زیدنے تمام رأس المال بمع نفع چیک کی صورت میں جمیل کو واپس کیا اور جمیل نے وہ تمام تر چیک زید سے لے کر اپنے پاس رکھ لیے اور جمیل نے خالد سے کہا کہ چیک کیش کرکے رقم دے دیں  گے لیکن کچھ عرصہ بعد زید نے جمیل سے وہ چیک واپس کرنے کا کہا کہ چیک واپس کرو اور رقم ساری کی ساری اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کریں گےتو جمیل نے خالد کو بتائے بغیر چیک واپس کر دیے،بعد میں خالد نے جمیل بھائی  سے رقم لینے کا کہا تو جمیل نے خالد سے کہا کہ مجھے تسلی ہے،اعتماد ہے وہ اکاؤنٹ میں رقم بھیج دے گا لیکن جوں جوں وقت گذر تا گیا جمیل اور زید ٹال مٹول کرتے رہے ۔

اب خالد نے جمیل سے کہا مجھے رقم واپس کردو تو جانے اور زید جانے،میرا کیا واسطہ زید سے ،نہ مجھے پہچان ہے اور نہ ہی میں اسے جانتا ہوں نیز خالد نے جمیل سے  یہ بھی کہا کہ چیک مجھے دیتے ،مجھے بتائے بغیر کیوں واپس کئےکیونکہ چیک نقد رقم کی ضمانت ہے خواہ وہ چیک کیش ہو یا نہ ہوپھر بھی چیک  تھا نہ اور عدالت میں کاروائی کا مجاز رکھتا ہےاور چیک ایک تسلی بخش ضامن اور ذریعہ ہےجس پر ہر جگہ قانونا اور اخلاقا اور رواجا جرگہ اور فیصلہ جات کئے جاسکتے ہیں اور آج کل عدالت اور تھانہ جات میں چیک اور اسٹام پیپر مانگا جاتا ہے۔

اب اس صورت میں جمیل خالد کا ضامن اور ذمہ دار ہوگا؟

صورت مسئولہ میں خالد رأس المال میں نفع کا حق دارہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

(۱)جمیل نے آگے مضاربت پر رقم خالد کی اجازت سے دی تھی؟

(۲)نفع اور نقصان کے بارے میں کیا طے ہوا تھا؟ اس کی تفصیل ذکر کریں ۔

جواب وضاحت: (۱)جی ،اجازت سےدی تھی ،البتہ اس کا تیسرے مضارب سے کیا معاملہ ہوا تھا وہ معلوم نہ تھا۔

(۲)نفع فکس تھافیصد میں طے نہیں تھا، نقصان کے بارے میں کچھ طے نہیں ہوا تھا۔

مزید وضاحت مطلوب ہے کہ آپ کے اس مسئلہ میں دوسرے فریق کا بیان بھی درکار ہے لہذا ان کا بیان یا انکا رابطہ نمبر بھیج دیں۔

جواب وضاحت:مفتی صاحب  دوسرے فریق والے ہمیں  وضاحت نہیں دیتے ، نیز ہم اس کو اطلاع دینا نہیں چاہتے کہ ہم اس بارے میں فتوی لے رہے ہیں ۔دوسری بات یہ کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے آپ اسی ہی کا جواب دیں جس میں سوال بھی ہو اور جواب بھی ہو ، کل آپ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ آپ نے تو اسی سوال کے مطابق جواب دیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)مذکورہ صورت میں اگرجمیل کا اس طرح چیک واپس کرنا اس کی کوتاہی شمار ہوتا ہے تو وہ رقم کا ضامن ہوگا ورنہ نہیں اور اس کافیصلہ کہ یہ کوتاہی ہے یا نہیں مارکیٹ (یعنی اس شعبہ ) کے دیندار لوگوں سے کروایا جائے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں اگرچہ  خالد اور جمیل کے درمیان مضاربت کے عقد میں نفع فکس طے ہوا تھا   جس کی وجہ سےمضاربت فاسد ہوچکی تھی لیکن مضاربت فاسدہ میں بھی مضارب اس صورت میں نقصان کاضامن ہوتا ہےجب اس کی کوتاہی ہو۔

(۲)مذکورہ صورت میں خالد رأس المال سمیت نفع کا حقدار ہےاور جمیل کو اجرت مثلی یعنی اس طرح کے بندے کو مذکورہ کام کی جتنی اجرت ملتی  ہےوہ ملے گی  ۔

نوٹ: ہمارا جواب سائل کے سوال کی بنیاد پر ہے، اگر فریق ثانی اس بیان سے متفق نہ ہو تو ہمارا جواب کالعدم ہوگا۔

ہندیہ (۱۶۹/۷)میں ہے:

ومنها (شرائط المضاربة) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط فإن قال على أن لك من الربح مائة درهم أو شرط مع النصف أو الثلث عشرة دراهم لا تصح المضاربة كذا في محيط السرخسي

ہدایہ(۳/۲۵۸) میں ہے:

قال ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة

 قال فإن شرط زيادة عشرة فله أجر مثله لفساده فلعله لا يربح إلا هذا القدر فتنقطع الشركة في الربح وهذا لأنه ابتغى عن منافعه عوضا ولم ينل لفساده والربح لرب المال لأنه نماء ملكه وهذا هو الحكم في كل موضع لم تصح المضاربة ولا تجاوز بالأجرالقدر المشروط عند أبي يوسف رحمه الله خلافا لمحمد رحمه الله كما بينا في الشركة ويجب الأجر وإن لم يربح في رواية الأصل لأن أجر الأجير يجب بتسليم المنافع أو العمل وقد وجد وعن أبي يوسف رحمه الله أنه لا يجب اعتبارا بالمضاربة الصحيحة مع أنها فوقها والمال في المضاربة الفاسدة غير مضمون بالهلاك اعتبارا بالصحيحة ولأنه عين مستأجرة في يده وكل شرط يوجب جهالة في الربح يفسده لاختلال مقصوده وغير ذلك من الشروط الفاسدة لا يفسدها ويبطل الشرط كاشتراط الوضيعة على المضارب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved