- فتوی نمبر: 3-222
- تاریخ: 21 جنوری 2010
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
(فتویٰ نمبر 3/ 82 سے متعلق دوبارہ استفتاء)
مذکورہ بالا کو اس سے پہلے جو رقم اس شرط کے مطابق ادا کرچکے ہیں ا س کےبارے میں بھی فتویٰ دیا جائے کہ اس ادا شدہ رقم کا شرعی حکم کیا ہے؟ اس کی وضاحت کردیں۔
نوٹ: اب جس بندے نے عرصہ دو سال سے جو رقم لی ہے اس کو پتہ چلا کہ یہ رقم جو میں لے رہا تھا وہ غلط ہے۔ وہ اس بات پر متفق ہے کہ جو میں رقم لے گیا ہوں وہ میری رقم اصل سے منہا کر دیں۔ یعنی کہ اس کی کل رقم 22 لاکھ ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مضاربت فاسدہ کی ہے۔ کیونکہ طے یہی پایا تھا کہ سیل پر نفع ملے گا ورنہ نہیں۔ اور مضاربت فاسدہ میں پیسے سے حاصل ہونے والا کل نفع سرمایہ دار کا ہوتا ہے، اور کام کرنے والے کو اجرت مثل ملتی ہے۔ یعنی اسے مارکیٹ ریٹ کے مطابق اپنی محنت کا حق اور عوض ملتا ہے۔ کاروبار کے نفع میں وہ شریک نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہماری زیر نظر صورت میں مذکورہ سرمائے کے ذریعے اس مدت میں حاصل ہونے تمام نفع سرمایہ والے شخص کا ہے۔ اور کام کرنے والا اس تمام دورانیے میں اپنی اجرت اور محنتانے کا حق دار ہے۔ اور اجرت کا تعین اس طرح ہوگا کہ یہ دیکھا جائے کہ مذکورہ شخص اگر اپنی ان صلاحیتوں اور وقت کے ساتھ ( جو اس نے اس کاروبار کو چلانے اور سرانجام دینے میں لگائی ہیں ) کسی کا ملازم بن کر کام کرتا تو اسے کتنی تنخواہ و اجرت ملتی۔ بس جتنی اجرت وہ ہو اس کے بقدر وہ یہاں سرمایہ دار سے لے سکتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved