- فتوی نمبر: 28-158
- تاریخ: 11 جنوری 2023
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
اگر کوئی شخص کاروبار میں پیسہ تو لگائے مگر محنت نہ کرے اور وہ کاروبار کرنے والے سے کوئی فکس رقم طے کردے کہ میں اتنے پیسے مثلا ماہانہ لوں گا تو اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کاروبار میں پیسہ لگانے کی یہ صورت کہ ایک شخص سرمایہ لگائے اور دوسرا اس سے کاروبار کرے شریعت میں مضاربت کہلاتی ہے جس کے جائز ہونے کی جملہ شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کاروبار سے جو حقیقی نفع ہو وہ آپس میں فیصد کے اعتبار سے مثلا 50 ،50 فیصد طے کیا جائے فکس نفع طے کرنا جائز نہیں نیز اصل سرمائے کے محفوظ رہنے کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی چنانچہ نقصان اگر مضارب (کام کرنے والے) کی کوتاہی کے بغیر ہو تو پہلے وہ نقصان ،نفع (اگر پہلے کچھ نفع بھی ہوچکا ہو) میں سے پورا کیا جائے گا اور نفع سے زیادہ ہونے کی صورت میں سرمایہ والے کا سرمایہ جائے گا یہ شرط لگانا کہ نقصان صرف کام کرنے والا برداشت کرے گا یا دونوں برابر برداشت کریں گے جائز نہیں اور اگر نقصان کام کرنے والے کی کوتاہی سے ہو تو سارا نقصان اسے ہی برداشت کرنا پڑے گا ۔ مذکورہ صورت میں چونکہ نفع کو فکس کر لیا گیا ہے لہٰذا یہ صورت جائز نہیں۔
التنویر مع الدر (12/358)میں ہے:
(وشرطها ….وکون الربح بينهما شائعا ) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصىب كل منهما معلوما ) عند العقد. ومن شروطها كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من راس المال او منه و من الربح فسدت
التنویر مع الدر (8/514) میں ہے:
وما هلك من مال المضاربة يصرف الى الربح) لانه تبع (فان زاد الهالك على الربح لم يضمن ) ولو فاسدة من عمله لانه امين
حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
قوله (من عمله ) يعنى المسلط عليه عند التجار واما التعدي فيظهر انه يضمن . سائحانی و فی تكملة حاشية ابن عابدين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved