- فتوی نمبر: 6-387
- تاریخ: 07 جون 2014
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
*** نے *** سے کہا کہ تم مجھے کچھ رقم دو میں اسے کاروبار میں لگاؤں گا، اور جتنا منافع مجھے ملے گا اس کا دو تہائی تمہیں دوں گا، یا کل نفع کا تہائی تمہیں دوں گا۔ *** نے *** سے رقم لے کر اپنے ایک دوست جو کپڑے کا کام کرتا ہے، کے کاروبار میں لگا دی، اس شرط پر وہ (دوست) *** کو نفع میں سے آدھا دے گا۔
وضاحت: *** کو اس بات سے غرض نہیں کہ *** خود کاروبار کرے یا آگے کسی کو دے دے، شرعی اعتبار سے *** کا یہ معاملہ کرنا کیسا ہے؟ نا جائز ہونے کی صورت میں جواز کی صورت کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت جائز ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت مطلق مضاربت کی ہے، اس صورت میں مضارب اس مال کو آگے کسی اور کو شرکت کے طور پر دے سکتا ہے (جیسا کہ مذکورہ صورت میں ہوا ہے) اور نفع بھی باہمی رضا مندی سے تناسب کے اعتبار سے طے کیا ہے جو کہ جائز ہے۔
و أما القسم الذي للمضارب أن يعمله إذا قيل له "اعمل برأيك” و إن لم ينص عليه فالمضاربة و الشركة و الخلط فله أن يدفع مال المضاربة مضاربة إلی غيره و أن يشارك غيره في مال المضاربة شركة عنان. (بدائع الصنائع: 5/ 133) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved