- فتوی نمبر: 6-172
- تاریخ: 04 اکتوبر 2013
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
ایک شخص نے مجھے بتایا کہ میں فلاں شخص کے پاس بطور مضاربہ پیسے لگا رہا ہوں، جس میں نفع بہت زیادہ بتایا، میں نے خود بھی اس شخص کو پیسے دیے اور اپنے خاندان و دوستوں کو بھی بتا دیا، جنہوں نے باصرار مجھے پیسے دے کر لگانے کو کہا۔ میں نے اپنے اور سب کے پیسے ملا کر کل 700000 روپے لگائے۔ جلد ہی اصل بندہ جس کے پیسے دیے گئے تھے بھاگ گیا، چونکہ میں نے اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو کہہ دیا تھا کہ ہم مضاربت کر رہے ہیں لہذا ہم نے جس شخص کو پیسے پکڑائے ہیں وہ ذمہ دار نہیں ہے۔ سب نے تسلیم کر لیا اور عرصہ تک سرمایہ لے کر بھاگنے والے کے بارے میں پوچھتے رہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ میں نے جس شخص کو پیسے پکڑائے تھے وہ شخص اپنے آپ کو قصور وار سمجھتا ہے اور مجھے اپنے پاس سے رقم لوٹا رہا ہے، اس نے اب تک 60000 روپے کی رقم کئی قسطوں میں کر کے لوٹا دی ہے۔ باقی بھی جلد لوٹا دے گا، قسطوں کی شکل میں وہ جب بھی مجھے کچھ رقم دیتاتھا، میں اسے سب میں اپنی صوابدید پر تقسیم کر دیتا تھا۔ کسی ایک دفعہ کم اور ایک دفعہ زیادہ، ایک دفعہ اس نے جب مجھے 50000 روپے دیے تو وہ میں نے خود اپنے کھاتے میں رکھ لر کہیں اور کاروبار میں لگا دیے۔ اور اس کا پرافٹ میں سے 10000 روپے باقی لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ اب سوال یہ ہے کہ
1۔ کیا ہم نے جس شخص کو پیسے پکڑائے تھے وہ ہمارا دیندار ہے یا نہیں؟ کہ ہمیں جو پیسے اپنے پاس سے واپس کر رہا ہے وہ ہمارے لیے لینا درست ہے یا نہیں؟ ہم اسے کہیں کہ تم ہمہیں ہدیہ دینے کی نیت کر لو۔
2۔ میں نے اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے اپنے کاروبارد کے بارے میں فقط بتایا تھا انہیں کوئی ترغیب نہ دی تھی، انہوں نے از خود اصرار کر کے مجھے پیسے دیے جس میں میں نے اپنا کسی قسم کا کوئی پرافٹ نہیں رکھا تھا، تو کیا میں اپنے خاندان و دوستوں کا دیندار ہوں؟
3۔ جب میں نے 50000 روپے اپنے کھاتے میں کر کے بغیر کسی کو کچھ دیے کہیں اور کاروبار میں لگائے اور اب اس کے پرافٹ میں سے دوسروں کو ان کا اصل زر واپس کر رہا ہوں۔ تو کیا وہ 50000 روپے میرے ہی شمار ہوں گے یا سب لوگوں کے مشترکہ ہوں گے کہ پرافٹ بھی ہمیشہ کے لیے مشترکہ ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ ظن غالب یہی ہے کہ متعلقہ شخص نے شرعی اصولوں کے مطابق پیسے کاروبار میں نہیں لگائے اور لوگوں کا سرمایہ لے کر بھاگ گیا ہے، اس لیے یہ پیسے غصب کے حکم میں ہیں۔ جو اصل سرمایہ اپنے پاس سے واپس کر رہا ہے اس سے
لے سکتے ہیں، لیکن جتنے ملیں وہ ہر ایک کے سرمائے کی شرح سے تقسیم کیے جائیں۔
باقی رہے پچاس ہزار روپے اور ان کا منافع تو اس میں سرمایہ فراہم کرنے والے لوگ اپنے اپنے حصوں کے بقدر شریک ہوں گے، پچاس ہزار پر نفع بھی اصل سرمایہ میں محسوب ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved