• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدت ختم ہونے کے بعد مضاربت میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری

استفتاء

راقم الحروف*** کا معاملہ مضاربت***ولد ***کے ساتھ اس کے والد محترم*** صاحب کی موجود گی میں بغیر تحریر کے (میں تحریری معاہدے کا کہتا رہا مگر انہوں نے یہ کہا کہ چیک آپ کے پاس ہیں یہ کافی ہیں )اکتوبر 2013میں طے پایا ۔

(١)بندہ نے آغاز میں ایک لاکھ روپے کی شراکت کی اور پھر  وقتاًفوقتاًراس المال بڑھاتے ہوئے اندازاً کل سرمایہ بندہ کی طرف سے پانچ لاکھ روپے (500000) تک 2014کے درمیان تک پہنچ گیا ۔(یہ معاہدہ  ایک سال کے لیے طے ہوا تھا ۔)

(٢)منافع کی شرح یہ طے ہوئی کہ ستر (70)فی صدمضارب ****** کا ہوگا اور تیس (30)فی صد بندہ کا ہوگا۔

کام کاسمیٹک کا طے ہوا کہ ****** کاسمیٹک کی چیزیں تیار کر ے گا اور اسے فروخت کرے گا ۔

(٣)منافع شرح کی وصولی کے لئے معاہدہ طے ہونے کے بعد مجھے چیک دیے گئے جو کہ *** صاحب کے دستخط شدہ تھے اور ہر ایک چیک ہر ماہ کی آخری تاریخ کو کیش کروانا تھا ۔

(٤)اور دو چیک راس المال کے جن میں سے ہر ایک کی مالیت مبلغ اڑھائی لاکھ روپے تھی *** صاحب کے دستخط شدہ بندہ کو ایک سال کے بعد کی تاریخ کے ملے۔

(٥)واضح رہے کہ مذکور الصدر معاملہ مضاربت میں مضارب ****** سے یہ طے ہوا کہ اصل مالیت کے مطالبے کی صورت میں راقم الحروف دو ماہ پہلے بتانے کا پابند ہوگا اور اطلاع کے بعد جتنا عر صہ بندہ کا سرمایہ ****** کے پاس رہے گا ****** اس کا بھی نفع دینے کا پابند ہوگا ۔

اکتوبر 2014تک معاملہ چلتا رہا اور راقم الحروف کو نفع کبھی ملتا اور کبھی نہ ملتا اور جوبھی ملا تاخیر سے ہی ملا ۔

2014نومبر کے آغاز میں مذکور الصدر معاہدہ کی اگلے سال تک کے لیے تجدید کی لیکن موصوف ****** نے 30جون 2015تک ایک روپیہ بھی ادا نہ کیا بلکہ 2014کے باقی منافع میں سے بھی کچھ رقم کی ادائیگی آج تک نہیں ہوئی ۔

چناچہ جولائی 2015کے آغاز میں بندہ نے بارہا مجبور ہو کر *** سے منافع کا مطالبہ کیا تو موصوف مضارب نے اپنے والد صاحب کی موجودگی میں یکم جنوری 2015سے 30جون 2015تک کا حساب کیا تو ****** نے ہر ماہ 1680ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْروپے ایک لاکھ کے عوض میں نفع دکھایا جس کی کل مالیت پانچ لاکھ کے عوض میں  50400روپے بنتی ہے ۔ مگر نفع دکھانے کے بعد ادائیگی پھر بھی نہ کی ۔ اس موقع پر ****** کی طرف سال 2014کا بھی کچھ نفع ادا کرنا واجب تھا جس کی مالیت 6050 ہے

بندہ نے سوچا کہ کاروبار نفع میں چل رہا ہے مگر بندہ کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا جارہا ۔ چنانچہ بندہ نے مجبور ہوکر معاہدہ میں طے کی گئی شرط کے مطابق اپنی اصل رقم بمع نفع واپسی کا مطالبہ کر د یااور مزید معاہدہ منسوخ کر دیا ۔ یعنی یکم جولائی 2015کو میں نے مضاربت ختم کر دی ۔ چاہئے  تو تھا کہ موصوف مذکورہ بندہ کو معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے یکم ستمبر 2015کو دو ماہ پورے ہونے پر رقم کی ادائیگی کر دیتا لیکن موصوف نے بندہ سے درخواست کی  وہ نومبر 2015 سے ہر ماہ اصل رقم کی ادائیگی ایک لاکھ روپے کی صورت میں قبول کرے گا جس کو بندہ نے قبول کر لیا۔

موصوف مضارب نے اس اپنے دیے گئے وقت پر بھی ایک بار پھر معاہدہ کی پاسداری کا خیال نہ رکھا اور حضورکریم ۖ کے فرمان ”مطل الغنی ظلم ”کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلسل اپنے والد صاحب کے ملاپ سے ٹال مٹول سے کام لیا ۔ اور بالاخر 8جنوری 2016ء  کو بندہ کو پانچ لاکھ چھپن ہزار چارسو پچاس (556450) میں سے صرف دو لاکھ روپے بینک کے ذریعے ادا کیے گئے اور پھر اس کے بعد پچاس ہزار روپے فروری کے آخری عشرے میں نقداً ادا کیے گئے  اور یہ یقین دہانی ****** کی طرف سے کروائی گئی کہ بقیہ رقم دو سے تین ماہ میں ادا کر دی جائے گی بندہ نے اس بات کو قبول کر لیا اور مزید انتظار کی یقین دہانی کرائی ۔

اس کے بعد مئی 2016 موصوف مضارب نے بندہ کو رقم کی ادائیگی کے لئے گھر بلایا تو بندہ اپنے والد ماجد مولانا غلام مصطفی صاحب کی رفاقت میں موصو ف کے گھر پر حاضر ہوا تو موصو ف مضارب نے بجائے رقم کی ادائیگی کے ایک نئی اور انوکھی کہانی جو بندہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی سنانا شروع کر دی اور کہا کہ کاروبار  میں نقصان ہو گیا ہے اور ہم آپ کو باقی رقم ادا کرنے کے پابند نہیں ہیں مگر آپ چونکہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تو باقی رقم آپ کو ہدیہ کی صورت میں ادا کریں گے مگر ضرور کریں گے آپ مزید وقت دے دیں لہذا بندہ نے پیسوں کی یقین دہا نی کے ساتھ مزید وقت انتظا ر کرنا شروع کردیا ۔

مفتی صاحب!بندہ معاہدہ مضاربت یکم جولائی 2015ء کو ختم کر چکا ہے اور موصوف مضارب گیارہ ماہ تک بندہ کو اپنی اصل رقم اور باقی نفع کی ادائیگی کی  یقین  دہانی کراتے رہے  اور اڑھائی لاکھ روپے جس کی تفصیل اوپر درج ہے ادا بھی کر دیے اور پھر مئی 2016میں بندہ کو اس فرضی نقصان میں شریک کرنا چاہتے ہیں جس میں بندہ شریک ہی نہیں ۔

کیا گیارہ ماہ بعد ان کا اس طور پر کاروبار میں نقصان بتانا اور پھر بندہ کو شریک کرنا جائز ہے ْْْْْْْْ؟

بندہ کو گیارہ ماہ تک تو پیسوں کی ادائیگی کے جھوٹے دلاسے ملتے رہے اور پھر گیارہ ماہ بعد نقصان بتلا کر باقی رقم کی ادائیگی سے انکار بدنیتی پر مبنی نہیں ؟

اس کے بعد جب بھی ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہی یقین دلایا کہ انتظار کریں آپ کو رقم ضرور ملے گی ۔

موصوف جو کہ خو د ساختہ مفتی بننے کی کوشش بھی کرتا ہے بندہ کو اپنے جائز حق کے مطالبے پریہ طعنے دینے لگے کہ اگر آپ اس کا مطالبہ کریں گے تو سود ہوگا ۔

کیا بندہ کا اپنے حق کا مطالبہ کرنا اور جس کی ادائیگی کی یقین دہانی موصوف اور اس کے والد گیارہ ماہ سے کرتے آرہے ہیں یہ سود ہے ؟

موصوف کے والد نے مجھے مولویوں اور مفتیوں کے معاملات میں خرابی کی باتیں بھی سنائیں ۔

موصوف مضارب نے بندہ کو اپنے حق کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے کسی اوباش  اور آوارہ لڑکے کے ذریعے حراساں بھی کیا جس سے تحفظ کے لیے بندہ کو مجبوراً پولیس اسٹیشن بھی جانا پڑا (اس حراساں کیے جانے کی ریکارڈنگ میرے پاس موجود ہے جس میں واضح طور پر گالم گلوچ کی گئی ہے )  ایک عالم اور دیندار تو کجا کیا ایک مسلمان جس کے دل میں ذرا سی بھی ایمان کی چنگاری موجود ہو رمضان میں تہجد کے وقت میں فون کر کے ایسا کر سکتا ہے ؟

مفتی صاحب اس واقعے کے بعد بندہ کو دلی صدمہ پہنچا  کہ بندہ کو اس کے صبر کا یہ صلہ  دیا جا رہا ہے اور بندہ نے اب اپنی رقم کا مطالبہ باربار کرنا شروع کردیا  جس پر ****** کے والد صاحب نے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی  کہ ہم رقم کا انتظام کر رہے ہیں اور ****** اسی سلسلے میں کراچی گیا ہوا ہے واپسی آئے تو آپ کو بلائیں گے ۔

****** کی واپسی کے بعد بھی بندہ کے والد ماجد ان *** صاحب کو فون کرتے رہے اور گاہے بگاہے ان کے گھر بھی جاتے رہے مگر حسبِ معمول وہی ٹال مٹول جاری رہی جو جولائی 2015کے بعد سے چلی آرہی ہے محترم *** صاحب نے تین چار بار جو دن متعین کیا رقم کی ادائیگی کے لئے اس سے بھی پھرتے رہے اور بالاخر 13اگست 2016کو مزید 65000/=روپے دیے اور کہا کہ5,7دن تک آپ کو مزید 35000روپے دیں گے اور مزید 70000روپے بھی ادا کریں گے ۔

مگر آج 30اگست 2016ہے بندہ کو مزید ایک روپیہ بھی واپس نہیں کیا گیا ۔

مفتی صاحب بندہ کے باقی پیسے جو *** کی طرف بنتے ہیں وہ یہ ہیں دو لاکھ اکتالیس ھزار چار سو پچاس  روپے (241450)

16اگست کو بندہ نے ****** کے والد سے درخواست کی کہ ہم اپنی ساری صورتِ حال کسی دارالافتاء کے سامنے رکھ کر فیصلہ کروا لیتے ہیں انہوں نے کہا کہ ****** کراچی جا رہے ہیں واپس آئیں گے تو کر لیں گے ایک ہفتے بعد ۔ مگر ایک ہفتے بعد بھی انہوں نے رابطہ نہیں کیا پھر بندہ نے خود فون کیا 26اگست کو تو انہوں نے کہا میں مصروف ہوں آپ کو فون کرتا ہوں مگر دوبارہ فون نہ کیا ۔ اور پھر اتوار 28اگست کو میں نے دوبارہ فون کر کے وہی درخواست کی جس پر سوموار کی صبح انہوں نے خود فون کر کے آمادگی ظاہر کی۔

مفتی صاحب یہ میرا معاملہ تھا جو میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اور میں محمد *** آپ کو اس معاملے میں منصف مانتے ہوئے آپ کے ہر فیصلےکو  ماننے کی یقین دہانی کراتا ہوں ۔

نوٹ: دعوی کے ساتھ کچھ درج ذیل نقول لف ہیں ۔

(١)3عدد چیک (منافع)

(٢)رسید حساب مع دستخط ***

(٣)اڑھائی لاکھ روپے کا چیک  (جس میں سے مبلغ 65ہزار وصول پا لیا ہے)

راقم الحروف

بیان ****** (مضارب)

بخدمت جناب مفتی صاحب  میں نے اور *** نے مل کر مضاربت پر ایک کام شروع کیا ۔نفع نقصان کی بنیاد پر جس میں پیسے *** صاحب کے تھے  اور کام میں نے کرنا تھا  میرے ذمہ مال تیار کرکے مارکیٹ میں دینا تھا ۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈھیڑ سال چلا میں نے *** صاحب سے آخری دفعہ 30/7/15کو حساب کیا 1/1/15سے لے کر جس میں میں نے *** صاحب کو بتایا کہ  آپ کو پر لاکھ پر نفع 1680/=روپے ہوا ہے چھ مہینوں میں اور انہیں دنوں میں *** صاحب نے اصل رقم کی واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا ۔جس میں میں نے ان سے کہا کہ ہم انتظام کر رہے ہیں ۔اس کے بعد ہم نے جو چھ مہینے میں مال بیچا تھا مارکیٹ میں وہ واپس آنا شروع ہو گیا جو کہ دسمبر تک مال کی واپسی کی قیمت 725000/=کی مالیت کا تھا ۔

اسی سال مئی 5/5/15میں میرے والد صاحب اسی مال کو لے کر بنگلہ دیش  بھی گئے تھے جس میں ہمارے 230000/=دو لاکھ تیس ہزارروپے رک گئے اس بات کا ذکر میں نے *** صاحب سے ہلکا کیا تھا ۔

اس کے بعد اگست  میں ہم نے ایک نئی پارٹی /بندے کے ساتھ نئے انداز میں کام شروع کیا جس میں ہماری اور ان کی شرائط باقاعدہ اسٹامپ پیپر پر لکھی گئی ۔ ہماری مال دینے کی شرائط اور ان کا ہمیں پیسے دینے کی شرائط تھی لیکن ان کے ساتھ ہمارا کام نہیں چل سکا ۔ اور اسی دوران *** صاحب  مجھ سے پیسوں کا مطالبہ بھی کر رہے تھے میں نے ان کو اس شرائط کو پیش نظر رکھتے ہوئے نومبر دسمبر سے ایک لاکھ روپے دینے کی ہامی بھر لی لیکن چونکہ ہمارا اس بندے کے ساتھ سلسلہ نہیں چلا اس لئے میں *** صاحب کو پیسے ادا نہیں کر سکا  *** صاحب کے اصرار کی وجہ سے میں نے کسی سے ادھار پیسے لے کر  *** صاحب کو 8/1/2016کو (200000)دو لاکھ روپے دیے  اور اس کے کچھ دن بعد پھر (50000)پچاس ہزار روپے دیے اور بقایا پیسے کا انتظام کرنے کا کہا ۔ لیکن جب ہماری پوری کوشش کے باوجود کام صحیح نہ ہو سکا تو پھر میں نے *** صاحب کو کہا کہ ہمیں نقصان ہو گیا ہے جس کی میں آپ کو تحقیق بھی کروا سکتا ہوں آپ میرے ساتھ مارکیٹ چلیں وہاں سے آپ کو تحقیق کروا دوں گا  اور خراب مال بھی دکھا سکتا ہوں جو واپس آیا ہے لیکن *** صاحب اس کو نہیں مان رہے ۔

نوٹ : میں نے *** صاحب سے عرض کی کہ آپ تھوڑی دیر رک جائیں مجھے تھوڑا سا سنبھلنے دیں مجھے ابھی بہت نقصان ہوا ہے میں آپ کو آپ کے بقا یا پیسے بطور ہدیہ ./تحفہ دے دوں گا لیکن *** صاحب اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے اور اپنی شادی اور حالات کا کہتے ہوئے پیسوں کا مطالبہ کرتے رہے میں نے بڑی مشکل سے ادھار پکڑ کر65000/=روپے پھر ہفتہ دس دن پہلے دیے ہیں ۔ اس طرح ان کی کل رقم 500000/=پانچ لاکھ میں سے 315000/=تین لاکھ پندرہ ہزار روپے ادا ہو چکے ہیں ۔

نقصان کی کل رقم     725000/=

جو رقم بنگلہ دیش میں رک گئی    230000/=کبھی بھی موصول ہو سکتی ہے

نفع کی مقدار  *** صاحب       30فی صد

نفع کی مقدار محمد ******            70فی صد

نفع کی ادائیگی *** صاحب 144000

موقف : ہمارا موقف یہ ہے کہ پیسے چونکہ نفع نقصان کی بنیاد پر دیے گئے تھے نفع کی صورت میں نفع ملا اور جب نقصان ہوا تو *** صاحب کو وہ بھی برداشت کرنا چاہیے ۔

کل سرمایہ     8لاکھ تقریباً

*** صاحب کا سرمایہ     5لاکھ

وضاحت مطلوب ہے: ’’نقصان ہو گیا/ مال واپس آنا شروع ہو گیا‘‘۔ اس کی کیا تفصیل ہے؟ واپس کیوں آیا؟

جواب وضاحت: ہم لوگ اس سے ایک کریم بناتے تھے جو سردیوں میں استعمال ہوتی تھی، اس کریم کے بنانے اور سیل ہونے کا سیزن تقریباً اکتوبر سے مارچ تک ہوتا تھا، ہم نے جو مال بنا کر مارکیٹ میں رکھا تھا اس میں تقریباً 75 فیصد مال سیل ہو گیا تھا۔ اتنے میں سیزن ختم ہو گیا اور دکانداروں نے باقی مال واپس کر دیا۔ یہ مال گرمی کی وجہ سے ہمارے پاس خراب ہو گیا۔ یعنی میلٹ ہو گیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں محمد *** کا کہنا ہے کہ ’’بندہ مضاربت یکم جولائی 2015ء کو ختم کر چکا ہے لہذا اس کے بعد اگر کوئی نقصان ہوا ہے تو بندہ اس میں شریک نہیں ہے‘‘۔ جبکہ خود *** نے شق نمبر 5 کے تحت ذکر کیا ہے کہ ’’اصل مالیت کے مطالبے کی صورت میں راقم الحروف دو ماہ پہلے بتانے کا پابند ہو گا اور اطلاع کے بعد جتنا عرصہ بندہ کا سرمایہ ****** کے پاس رہے گا، ****** اس کا بھی نفع دینے کا پابند ہو گا۔‘‘

یہ بات اسی وقت ہو سکتی ہے کہ جب ہم اطلاع کے بعد بھی مضاربت کو باقی سمجھیں اور مضاربت کو باقی سمجھنے کی صورت میں نقصان اگر ****** کی کوتاہی سے ہوا ہے تو اس کا ذمہ دار ****** ہے اور اگر یہ نقصان ****** کی کوتاہی کے بغیر ہوا ہے تو اس نقصان کی تلافی پہلے نفع میں سے کی جائے گی اور اگر نفع میں سے تلافی ممکن نہ ہو تو اصل سرمایہ سے کی جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ اس نقصان میں ****** کی کوتاہی ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کاروباری اور اس طرح کے معاملے کی سمجھ بوجھ رکھنے والے غیر جانبدار حضرات ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1]  عرض:

مذکورہ معاملے کا شرکت صنائع ہونا محل تامل ہے، جس کی وجوہات یہ ہیں:

1۔ شرکت صنائع میں معقود علیہ محض عمل اور تقبل ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں جانبین سے محض عمل نہیں بلکہ ایک فریق کی جانب سے شرٹ کی خریداری بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک فریق کی جانب سے سرمایہ بھی ہے اور اس سرمائے سے خریدی ہوئی چیز فروخت ہوتی  ہے جس پر نفع بھی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ محض شرکت صنائع نہیں، بلکہ صنائع اور شرکت اموال کا مجموعہ بن جائے گا۔ الا یہ کہ شرٹ کی خریداری کو مشتری کی جانب سے وکالۃً خریداری سمجھا جائے، جو کہ تاویل بعید ہے۔

2۔ شرکت صنائع میں عقد کے تقاضے کی رو سے ہر عمل کی ذمہ داری دونوں شریکوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ باہمی سمجھوتہ سے تقسیمِ کار پر اتفاق کر لیں۔ جبکہ یہاں ابتداء ہی سے تقسیمِ کار کی بنیاد پر عقد قائم ہے۔ اور مشترکہ ذمہ داری کا وجود نہیں۔ اور ایسا ہونا شرکت کے فساد کو مستلزم ہوتا ہے۔  

وكل ما تقبله أحدهما يلزمهما وعلى هذا الأصل فيطالب كل واحد منهما بالعمل. (شامي: 6/ 493)

اشترك ثلاثة من الحمالين على أن يملأ أحدهم الجوالق، ويأخذ الثاني فمها، ويحملها الثالث إلى بيت المستأجر، والأجر بينهم بالسوية، فهي فاسدة، قال فسادها لهذه الشروط، فإن شركة الحمالين صحيحة إذا اشتركوا في التقبل والعمل جميعاً. اه. أي وهنا لم يذكر التقبل أصلاً، بل مجرد العمل مقيداً على كل واحد بنوع منه. (مجله: 4/ 310، طبع رشيديه)

3۔ شرکت صنائع میں اگر ایک شریک عملاً کام سر انجام نہ بھی دے، تب بھی آمدن میں استحقاق رکھتا ہے، جبکہ یہاں یہ متصور نہیں ہے۔ في الشامية:

والحاصل من أجر عمل أحدهما بينهما على الشرط، ولو الآجر مريضاً أو مسافراً أو امتنع عمداً بلا عذر، لأن الشرط مطلق العمل، لا عمل القابل، ألا ترى أن القصار لو استعان بغيره أو استأجره استحق الأجر. (6/ 495)

4۔ شرکت صنائع میں نقصان اور خطرہ مول لینے میں دونوں شرکاء شریک ہوتے ہیں، جبکہ یہاں شرٹ فروخت ہونے اور اپنا کمیشن حاصل کرنے کے بعد ڈیزائنر کو اس سے سروکار نہیں کہ بعد میں شرٹ کے خراب پرنٹ ہونے یا کسی اور وجہ سے واپس ہو یا نہ ہو۔ في المجلة:

إذا تلف أو تغيب المستأجر فيه بصنع أحد الشريكين يكون ضامناً بالاشتراك مع الشريك الآخر والمستأجر يضمن ماله أيّاً شاء منهما، ويقسم الخسار بين الشريكين على مقدار الضمان مثلاً. (4/ 316)

جواز کی قریبی صورت:

اس معاملے کو اجارہ قرار دیا جائے، جس میں (1) ڈیزائن اور (2) تشہیر ڈیزائنر کے ذمے ہیں۔ اور ان دونوں کاموں کی اجرت، شرٹ کی قیمتِ فروخت کے ساتھ فیصدی تناسب سے منسلک ہے۔ اور اجرت کا قیمت فروخت کے ساتھ منسلک کرنا جائز ہے۔  فقط  واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved