- فتوی نمبر: 5-339
- تاریخ: 12 مارچ 2013
- عنوانات: مالی معاملات > سود
استفتاء
میں نے قسطوں پر ایک موٹر سائیکل خریدی ہے۔ قسط کی پالیسی کچھ اس طرح ہے کہ موٹر سائیکل نقد میں 68000 روپے کی ہے تو قسطوں میں پانچ ماہ کے ادھار پر وہ موٹر سائیکل 75500 کی پڑے گی۔ 18000 روپے ایڈوانس دے دیے گئے ہیں۔ باقی پیسوں کے بارے میں یہ طے ہوا ہے کہ اگر وہ پیسے پانچ ماہ تک ادا کیے گئے تو 75500 روپے دینے ہوں گے۔ جس کی ماہانہ ادائیگی 11500 روپے ہوگی۔ اور اگر پانچ ماہ سے کم میں ادائیگی ہوتی ہے تو فی مہینہ 1500 روپے کم ہوتے جائیں گے۔ مثلاً چار ماہ میں ادا کرتا ہوں تو 56000 رواپے ادا کرنے ہوں گے۔ و علی ہذا القیاس جتنے کم مہینے ہوں گے اوپر کا اضافی مارجن یعنی 1500 روپے ہر ماہ کے اعتبار سے کم ہوتے جائیں گے۔ حتی کہ اگر ایک مہینے میں کل پیسے کی ادائیگی کردی تو پھر صرف ایسی مہینے کے 1500 روپے اضافی دینے ہوں گے یعنی 51500 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ یہ تو کمی کی صورت میں ہے۔
اور اگر ادائیگی پانچ ماہ سے زیادہ ہوئی تو پھر ہر ایک مہینے پر پہلے اضافی مارجن کے ساتھ ساتھ مزید 1500 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اس طرح جتنے مہینے بڑھتے جائیں گے فی مہینہ 1500 روپے بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیا ایسے طریقے سے موٹر سائیکل کی خریداری جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ صورت جائز نہیں تو اب میں کیا کروں؟ اس معاملے کو جاری رکھوں یا فوراً ختم کرنا ضروری ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت جائز نہیں اس کو فوری ختم کرنا ضروری ہے۔
توجیہ: پانچ ماہ سے کم مدت میں ادائیگی کی صورت میں کثیر دین کی قلیل نقد کے عوض فروخت ہے اور یہ ضع و تعجل کی صورت ہے جو کہ ناجائز ہے۔ اور ادائیگی مؤخر کرنے کی صورت میں زائد رقم ادا کرنے کی شرط جائز نہیں کیونکہ زائد رقم سود بنتی ہے اور سود کرتے وقت ایسی شرط لگانے سے سودا بھی فاسد ہوجاتا ہے۔
و لما أجلى بنى النضير قالوا إن لنا ديوناً على الناس فقال ضعوا و تعجلوا و معلوم أن مثل هذه المعاملة لا يجوز بين المسلمين فإن من كان له على غيره دين إلى أجل فوضع عنه بعضه بشرط أن يعجل بعضه لم يجز كره ذلك عمر و زيد بن ثابت و ابن عمر رضي الله عنهم. ( مبسوط: 13/ 148)
إذا كان عليه دين مؤجل فقال لغريمه ضع عني بعضه و أعجل لك بقية لم يجز كرهه زيد بن ثابت و ابن عمر و المقداد و سعيد ابن المسيب و سالم و الحسن و حماد و الحكم و الشافعي و مالك و الثوري و هثيم و ابن علية و اسحق و أبو حنيفة و قال المقداد لرجلين فعل ذلك كلاكم قد آذن بحرب من الله و رسوله و روي عن ابن عباس أنه لم ير به بأساً و روي ذلك عن النخعي و أبي ثور لأنه آخذ بعض حقه تارك لبعضه فجاز كما لو كان الدين حالاً و قال في النحر لا بأس أن يعجل الكاتب لسيده و يضع عنه بعض كتابته و لنا أنه بيع الحلول فلم يجز كما لو زاده الذي له الدين فقال أعطيتك عشرة دراهم و تعجل لي المائة التي عليك فإما المكاتب فإن معاملته مع سيده و هو يبيع بعض ماله ببعض فدخلت المسامحة فيه و لأنه سبب العتق فسومح فيه، بخلاف غيره. (مغنی: 4/ 175- 174) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved