- فتوی نمبر: 19-362
- تاریخ: 22 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > منتقل شدہ فی حظر و اباحت
استفتاء
’’منصور نے سالم بن ابی جعد سے ،انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، کہا : ہم (انصار ) میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ،اس نے اس کا نام محمد رکھا ،اس کی قوم نے اس سے کہا: تم نے اپنے بیٹے کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر رکھا ہے ،ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نام نہیں رکھنے دیں گے،وہ شخص اپنے بیٹے کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر (کندھے پر چڑھا کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:اللہ کے رسول ! میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے،اس پر میری قوم نے کہا ہے : ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام نہیں رکھنے دیں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر (اپنی) کنیت نہ رکھو۔بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں (جو اللہ عطا کرتا ہے،اسے ) تمہارے درمیان تقسیم کرتاہوں ۔‘‘
مذکورہ حدیث کے متعلق درج ذیل سوالات مطلوب ہیں :
(1) اس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت نہ رکھنے سے کیا مراد ہے؟
(2)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-2 :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم ہے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کنیت ”ابوالقاسم “نہ رکھے لیکن یہ ممانعت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسم کی کنیت کے ساتھ التباس نہ ہو، لہذاآپ صلی اللہ علیہ وسم کی وفات کے بعد یہ کنیت رکھنے میں کچھ حرج نہیں چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کی کنیت ”ابو القاسم “رکھی تھی۔
حاشية ابن عابدين (6/ 417)میں ہے:
قوله ( قد نسخ ) لعل وجهه زوال علة النهي السابقة بوفاته عليه الصلاة والسلام۔
الدر المختار (6/ 417)میں ہے:
ومن كان اسمه محمدا لا بأس بأن يكنى أبا القاسم ) لأن قوله عليه الصلاة والسلام سموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي قد نسخ لأن عليا رضي الله عنه كنى ابنه محمد بن الحنفية أبا القاسم۔
تکملۃ فتح الملھم (4/121) میں ہے:
أن النهي كان خاصاً بزمن النبي صلى الله عليه و سلم لوقوع الالتباس حينئذ أما بعده فيجوز لتكني بأبي القاسم لكل أحد مطلقاً وهذ ا القول حكاه النووي عن مالك، وقال القاضي : و به قال جمهور السلف و فقهاء الأعصار و جمهور العلماء۔ و مما يدل على الجواز بعد وفاة النبي صلى الله عليه و سلم ما أخرجه أبو داؤد و ابن ماجة، و الحاكم، و البخاري في أدب المفرد عن علي رضي الله عنه قال: قلت: يا رسول الله! إن ولد لي من بعد ولد أسميه باسمك و أكنيه بكنيتك؟ قال: ((نعم)).
© Copyright 2024, All Rights Reserved