• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

محرم كے ليے چوتھائی سر سے کم بال کاٹنے کا حکم

استفتاء

1۔ہمیں کسی نے عمرے پر بھیجا تھا میرے شوہر نے ایک عمرہ کرنے کے بعد قصر کیا اور آخری عمرہ کے بعد حلق کروایا جبکہ درمیان کے دو عمرے کرنے پر کسی نے کہا کہ آپ 3 جگہ سے بال کاٹ لیں تو یہ کافی ہے، اب 5 ماہ بعد  مسئلہ پڑھا ہے کہ وہ چوتھائی سر نہیں بنتا تھا تو کیا دم لازم ہے؟

2۔اگر دم لازم ہے تو کیا مذکورہ حالات میں دم کے پیسے فلسطین بھجواسکتے ہیں؟ ہمارے پاس عمرہ کے پیسے نہیں تھے ہمیں کسی اور نے عمرہ کروایا تھا اور دم کے  پیسے بھی موجود نہیں ہیں، آہستہ آہستہ کرکے جمع کرسکتےہیں ماہانہ آمدن 35000 کے قریب  ہوجاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔احرام سے نکلنے کے لیے کم ا ز کم ایک چوتھائی  سر کے بال منڈانا یا  ایک پورے کے برابر کاٹنا ضروری ہے۔ مذکورہ شخص نے چونکہ دو عمروں کے درمیان  چوتھائی سر کے بال نہ منڈوائے اور نہ ہی ایک پورے کے برابر  کاٹے اس لیے مذکورہ شخص پر  دو دم لازم   ہیں  بعد میں جتنی جنایات احرام کا ارتکاب  ہوا ہے ان پر مزید  کوئی دم لازم نہیں ہوگا کیونکہ یہ خروج عن الاحرام بقصد الرفض  ہے۔

2۔دم کے پیسے فلسطین نہیں بھجواسکتے بلکہ  دم حدود حرم میں ہی دینا لازم ہوتا ہے اور اس کے لیے بھی صرف پیسے بھجوانا کافی نہیں بلکہ حدود حرم میں  کسی کے ذریعے بکرا ذبح کروانا ضروری ہے۔

فتح القدير (3/ 78) ميں  ہے:

«(والهدي لا يذبح إلا بمكة) لقوله تعالى {‌هديا ‌بالغ ‌الكعبة} [المائدة: 95] (ويجوز الإطعام في غيرها) خلافا للشافعي – رحمه الله -. هو يعتبره بالهدي والجامع التوسعة على سكان الحرم، ونحن نقول: الهدي قربة غير معقولة فيختص بمكان أو زمان. أما الصدقة قربة معقولة في كل زمان ومكان»

(قوله: ونحن نقول إلخ) وذلك أنه لما عين الهدي أحد الواجبات علم أنه ليس المراد مجرد التصدق باللحم وإلا لحصل التصدق بالقيمة أو بلحم يشتريه، بل المراد التقرب بالإراقة مع التصدق بلحم القربان، وهو تبع متمم لمقصوده فلا ينعدم الإجزاء بفواته عن ضرورة، فلذا لو سرق بعد الإراقة أجزأه، بخلاف ما لو سرق قبلها أو ذبح بالكوفة فسرق لا يجزيه؛ لأن القربة هناك لا تحصل إلا بالتصدق لاختصاص قربة الإراقة بمكان مخصوص أعني الحرم

ردالمحتار (3/585) میں ہے:

قال في اللباب واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام وعليه أن يعود كما كان محرما ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved