• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مختلف اوقات میں پانچ طلاقیں دینا

استفتاء

میرانام***ہے۔ میرامسئلہ یہ ہے کہ میری شادی کو اٹھارہ سال ہوچکے ہیں۔میرے چار بچے ہیں۔ جوکہ اپنے والد کے پاس رہتےہیں۔ میرے خاوند کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ جوManic Depression Bispollos Eeffictne …. جوکہ ایک بیماری کانام ہے۔ اور اس حالت میں وہ مجھے صحیح نہیں سمجھتے ، عجیب وغریب باتیں کرتےہیں۔ مجھے اور بچوں کو پریشان کرتے ہیں۔ اور مجھے اور میرے والدہ کو اپنا دشمن سمجھتےہیں۔ اور یہ بیماری ان کو شادی سے پہلے سے ہیں اور مجھ سے یہ بات چھپائی گئی تھی۔ آئے روز گھر میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔جب سے گھر کا ماحول خراب ہوچکا ہے۔ اور دوائیاں کھانے کے باوجود مجھے ہمیشہ پریشان کرتےہیں۔ اور مجھے پانچ طلاقیں لکھی ہوئی مل چکی ہیں۔ اور میں ایک سال سے گھر سے باہر ہوں مجھے گھر سے نکال دیا ہے ۔ اب مجھے فتوی دیں کہ مجھے طلاق ہوچکی ہے یا نہیں؟ کیونکہ میں بھی ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، اور میں کورٹ کچہری کے چکر نہیں لگانا چاہتی۔ میں آپ کوبتانہیں سکتی کہ مجھے ملتان سے نکالنے کے لیے کیسے کیسےحربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ پانچ طلاقیں مختلف اوقات اور وقفوں سے دی گئی ہیں جوکہ میں آپ کو ارسال کررہی ہوں۔

طلاق نامہ     08۔10۔23

میں مسمی***ولد م*** بقائمی ہوش وہواس اپنی ***کوطلاق دے رہاہوں جس کی تفصیلی وجوہات میں درجہ ذیل دیتاہوں۔(***:08۔10۔23)

طلاق نامہ     2008۔02۔06

میں مسمی *** ولد*** بقائمی ہوش وحواس *** المعروف مس*** مکان نمبر83 ، سٹریٹ نمبر3 لین 70 *** کالونی سیکٹر ایف 3/ 10*** کو طلاق دیتاہوں ی*** بھٹی بچوں کا ،حق مہر یا کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ اس کے تمام حقوق سے محرومی کی تفصیلی وجوہات میں ***  مفتی مدرسہ انوار العلوم ***کے نام خط میں بیان کرچکاہوں۔

طلاق نامہ

میں مسمی ***ولد ***بمقائمی ہوس وحواس 12ستمبر1991 سے آ ج تک ہونے والے بدامنی کے واقعات کی بناء پر اور مسز فرخ ایاز کے براہ راست مطالبہ پر خلوص نیت سے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانے کے خاطر مشروط طور پر ***زوجہ*** ہاؤس جنا چوک*** کو مندرجہ ذیل شرائط کہ:

۱۔ وہ میری طرف سے دوہزارروپے ماہانہ قسط کی صورت میں غیر موجل حق مہر سولہ ہزار روپے قبول فرمایئں گی۔

۲۔ چاروں بچے میرے پاس رہیں گے۔

۳۔ہزارروپے ماہانہ خرچ حق مہر ادا ہونے کے بعد  جاری رہے گا۔ جب تک جیساکہ ان کی بڑی بہن نازنین نے مجھ سے لکھوایا تھا اس تاریخ سے آج یعنی 04۔6۔7 تک جتنی رقم بنتی ہے ادانہ ہوجانے” پر طلاق دیتاہوں۔

میں نے بیشتر حقائق جو ضروری تھے سے چیف جسٹس کو آگاہ کرچکاہوں ۔ اگر۔۔۔اس مشروط طلاق کوقبول نہ بھی کرے تو میں چیف جسٹس صاح ب کو گزارش کرتاہوں کہ وہ میرے ذاتی گھریلو اور اردگرد کے امن کو یقینی بنانے اور میرے بچے جو قوم کا عطیہ ہیں ان کے بہتر مستقبل کی خاطر اس طلاق کو مذکورہ شرائط  پر نافذ العمل بنائیں۔ جہاں تک حق مہر کو اقساط میں اداکرنے کا تعلق ہے تو قران پاک میں سورہ بقرہ کے رکوع 38 کی آیت 280″ اگر ہے تنگ دست تو مہلت دینی چاہیے کشائش ہونے تک اور اگر بخش دو تو بہت بہتر ہے تمہارے لیے۔ اگر تم کو سمجھ ہو” ۔ کافی ہے۔

***23 جولائی2004

04۔7۔22  رات عشاء کی نماز کے بعد *** اور *** کا فون آیا جبکہ میں ***کے گھر واقع گول باغ نزد بورڈ کے دفتر موجودتھا۔ انہوں نے بتایا کی  اسلام آباد جارہی ہیں۔ ذیل کے پیش نظر کہ

1۔95/1994 میں تم ***اور *** جب وہ شیرخوار بچے تھے چھوڑکر اسلام آباد بھاگ گئیں بغیر بتائے۔

2۔98/ 1996  کے دوران تم میرے سامان کے ساتھ گھر سے بھاگ کر اپنے میکے چلی گئیں۔ اس سامان میں میرا موٹرسائیکل بھی شامل تھا۔ حتےکہ تم نکاح نامہ اور میرے ملنے والوں کے کارڈ تک لے گئیں اور نکاح نامہ ابھی تک تمہاری ماں کے پاس ہے  جس کی نقل باوجود کوشش کے مجھے نہ مل سکی ہے۔

3۔تم نے*** پبلک سکول کی گرلز برانچ ***کو میری مرضی کے خلاف جوائن کرلیا اور بعد ازاں میری بیٹی کوبھی زبردستی لے گئیں۔

4۔بعد ازاں تم نے تھوڑے دن پہلے مجھ سے بی۔ اے کے مضامین پوچھے تو میرے استفسار پر تم نے مجھے بتایا کہ تم نے بی ۔ اے کی جعلی سند سکول والوں کو دی ہوئی ہے اور DCO انٹرویو لینے آرہاہے اس کی تیاری تمہیں مقصود ہے۔

5۔اور یہ کہ میں تمہیں بار بار سمجھاتارہاہوں کہ نوکری چھوڑدو لیکن تم پر اس کا الٹااثر ہوا کہ تم ایم۔اے  ایجوکیشن کا سوچنے لگی اور یہ کہ کرامت صاحب سے پروموشن کی سفارش کا سوچنے لگی۔

6۔مزید براں یہ کہ تم خود غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہونے کے ساتھ مجھے بھی غیر قانونی کام کرنے پر مجبور کرنے لگی۔ حال ہی میں تم نے بچوں کے ذریعے مجھے بلیک میل کیا اور مجبورکیا کہ میں موٹر سائیکل بغیر کلیئر نس سرٹیفیکیٹ کے چلاؤں۔ تم ۔۔۔۔روپے مجھے موٹر سائکل مرمت کے لیے دیئے جس کا  نمبر میرے پاس نوٹ ہے اور  وہ  نوٹ کل مورخہ 04۔7۔22 کو *** کے ساتھ***تمہیں دینے کے لیے مجھ سے لے گئے ہیں۔ اور تمہارے مطالبے پر وہ نوٹ تمہیں واپس پہنچا دیاہے۔

7۔اور یہ کہ میں نے تمہاری جرائم کی دنیا سے واپسی کی کوششوں کی ناکامی  پر فیصلہ کیا ہے کہ میں ایک مجرم کے ساتھ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی  میرے بچے مجر م کے ساتھ رہ سکتے ہیں، چھوٹا بیٹا محمد احمد ہمیشہ میرے پاس رہا ہے۔ جبکہ تم سکول کوآڑ بناکراسے مجھ پر ڈال کر چلی جاتی تھی۔ حتی کہ بعض اوقات راتوں کو بھی وہ ۔۔۔۔۔۔اور صفائی کا مناسب خیال نہیں  کرتی۔ اس کا فیڈر نہیں چھڑوانا چاہتی اور یہ کہ وہ تمہارا محتاج نہیں ۔ تمہارا دودھ نہیں پیتا۔ میں اسے تمہارے ساتھ جرائم کی دنیا میں پلنا دیکھنا نہیں چاہتا۔

تمہارے اثرات میرے بچوں پر بھی پڑرہے ہیں تمہاری زبان بھی اچھی نہیں ۔ تم اکثر کہتی  رہی ہو کہ یہ بچے تمہیں کچھ نہیں دیں گے اوریہ کہ تم چلی جاؤ گی اور یہ کہ*** بڑاہوگا تواسے بھی میرے پاس پھینک جاؤگی اس سے تمہاری تمنا کا پتہ چلتاہے۔ تم بات کرکے فورا مکرجاتی ہو وغیرہ وغیرہ۔

ایک مجر م کسی حق کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ تم سب کام اپنی مرضی سے کرتی ہو میری مرضی میں نہیں ہو لہذا میں تمہاری ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ تمہیں میری طرف سے طلاق ہے ۔ تم فوری طورپر میرے گھر اور بچوں کو چھوڑکر چلی جاؤ اور اپنا سامان لے جاؤ نہیں تو میں تمہاری ماں کے گھر بھجوادوں گا۔

مزید ایک تحریر

آپ نے پے درپے میری عزت، شہرت،میرے بچوں کے اعتماد ، حقوق کو نقصان پہنچایا ہے۔ میرے دفتری معاملات میں مداخلت کی ہے ۔گھر سے باہر رہ کر آپ نے اپنے کردار کو مشکوک کرلیا ہے۔ ریاستی مشنری کا غلط استعمال کیا ہے۔

آپ کی والدہ  نے ہمیشہ آپ کی پشت پناہی کی ہے۔ کل  ہی فون پرآپ نے بارہا کہا کہ میں  آپ کا پیچھا چھوڑدوں۔ لہذا میرے پاس کوئی چارہ نہیں کہ آپ کے پر زور اقرار اور ڈرامائی طور پر بار بار گھر سے بھاگ جانے  اور مجھے تنگ کرنے سے باز رکھنے اپنے بچوں کو ذلت رسوائی ،کیفیت ،نفسیاتی طور پر خودداری کے کچلے جانے کے احساس کمتری اور ذہنی ،جسمانی ، روحانی ، دینی بے راہ روی اور غلط ماحول سے بچانے کے لیے آپ کو ” طلاق دے دوں”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ نے ٹیلی فون پر بیان دیا ہے کہ آپ کے شوہر نے آپ کو نارمل حل میں طلاق لکھی ہے اورآپ نے یہ تحریر کیا ہے کہ آپ کے شوہر نے آپ کو گھر سے نکال دیاہے۔

اگر دونوں باتیں واقع کے مطابق ہیں تو آپ کو 2008۔2۔6 والی طلاق بائن ہوئی۔ اگر اس کے بعد شوہر نے رجوع نہیں کیا تھا۔ اور اس وقت رجوع کرلیا تھا۔ تو 2008۔10۔23 والی طلاق مل کر دو طلاق بائنہ ہوئیں، یہ عدت گذرنے کی صورت میں ہے۔

طلاق بائن سے نکاح ٹوٹ جاتاہے، اور جب تک تین طلاقیں پوری نہ ہوں عورت کو اختیار ہوتاہے کہ وہ خواہ اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کرلے یا کسی اور سے کرلے۔

04۔7۔23 والی طلاق طلاق مشروط ہے ۔ اور شرط پائی نہیں گئی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved