• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مختلف فیہ مسائل کی وضاحت

استفتاء

1.رفع یدین کے  حوالے سے رہنمائی فرمائیں کیا یہ درست عمل ہے؟

2.نماز میں کتنے پیر پھیلانے  ہیں؟

3.اگر نماز سے پیر اٹھ جائیں تو کیا نماز ٹوٹ جاتی ہے؟

وضاحت:آپ کا سوال سجدہ میں پاوں اٹھنے سے متعلق ہے یا مطلق نماز میں؟

جواب:مطلق نمازمیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا سنت ہے اس کے علاوہ دیگر مقامات پر رفع یدین سنت نہیں ہے۔

مسند حميدی (2/277) میں ہے:

حدثنا الحميدي قال: ثنا الزهري، قال: أخبرني سالم بن عبد الله، عن أبيه، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة ‌رفع ‌يديه حذو منكبيه، وإذا أراد أن يركع، وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين»

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نے نماز شروع فرمائی تو آپﷺ نے اپنے کندھوں تک اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا،اور رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سراٹھاتے ہوئے رفع یدین نہیں کیا،اور نہ ہی دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین کیا۔

ترمذی شریف (1/305) میں ہے:

حدثنا هناد قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة». وفي الباب عن البراء بن عازب. حديث ابن مسعود حديث حسن، وبه يقول ‌غير ‌واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين، وهو قول سفيان الثوري، وأهل الكوفة

حضرت علقمہ ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا "کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھ کر دکھاوں؟چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کیا۔

امام ترمذی ؒ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

یہ حدیث حسن ہے۔اور صحابہ کرام اور تابعین میں سے بےشمار حضرات رفع یدین نہ کرنے کے قائل تھے۔اور اہل کوفہ اور سفیان ثوری ؒ بھی اس کے قائل تھے۔

2.مناسب یہ ہے کہ دونوں پاؤں کی انگلیوں کے درمیان کم از کم  چار انگل کا فاصلہ ہو اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا ۔

مصنف عبدالرزاق (2/265)میں ہے:

 عن أبي عبيدة قال: مر ابن مسعود برجل صاف بين قدميه، فقال: أما هذا فقد أخطأ السنة، لو راوح بهما كان أحب إلي۔

ترجمہ:حضرت ابوعبیدہ ؒسے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس نے اپنے دونوں قدم ملائے ہوئے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا”پاوں کے  فاصلہ کا یہ طریقہ خلاف سنت ہے اگر یہ شخص ددنوں پاوں کے درمیان فاصلہ رکھے تو یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔

حاشیہ ابن عابدین (2/163)میں ہے:

وينبغي أن يكون بينهما مقدار أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى ‌الخشوع، هكذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنه كان يفعله كذا في الكبرى

3.قیام کی حالت میں بغیر عذر  ایک قدم اٹھانا مکروہ ہے،تاہم اس سے نماز نہیں ٹوٹتی اور سجدہ میں یہ تفصیل ہےکہ اگر پورا سجدہ دونوں پاوں زمین سے اٹھے رہیں تو نماز نہیں ہوتی اور اگر دو پاوں مکمل نہ اٹھیں  بلکہ ایک پاوں اٹھے یا اس سے کم یازیادہ یا پھر پاوں پورے سجدہ تک اٹھے نہ رہیں بلکہ کچھ وقت اٹھیں تو  یہ بھی بلاعذر مکروہ ہے۔،تاہم ان صورتوں میں نماز نہ ٹوٹے گی۔۔

حاشیہ ابن عابدین(2/163)میں ہے:

(ومنها القيام) بحيث لو مد يديه لا ينال ركبتيه

ويكره القيام على أحد القدمين في الصلاة بلا عذر، وينبغي أن يكون بينهما مقدار أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى الخشوع، هكذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنه كان يفعله كذا في الكبرى

فتاوی عالمگیری (1/67)  میں ہے:

ويكره القيام على إحدى القدمين من غير عذر وتجوز الصلاة وللعذر لا يكره. كذا في الجوهرة النيرة والسراج الوهاج

رد المحتار (2/167)میں ہے:

(ومنها السجود) بجبهته وقدميه، ووضع إصبع واحدة منهما شرط (قوله وقدميه) ‌يجب ‌إسقاطه لأن وضع إصبع واحدة منهما يكفي كما ذكره بعد ح. وأفاد أنه لو لم يضع شيئا من القدمين لم يصح السجود وهو مقتضى ما قدمناه آنفا عن البحر، وفيه خلاف سنذكره في الفصل الآتي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved