• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مختلف موقعوں پر طلاق دینے کا حکم

استفتاء

میرا نام***ہے میری شادی10-02-2012میں ہوئی،شادی کے کچھ ماہ بعد شوہر نے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا، 24-09-2012 کومیری بیٹی کی پیدائش ہوئی،11اکتوبر2012کو میرے شوہر نے ساس،سسر اور دیگر افراد کے سامنے دو طلاقیں دیں ،جن کے الفاظ یہ تھے’’میں نے تمہیں طلاق دی ،میری طرف سے تمہیں طلاق ہے‘‘پھر چند دنوں بعد ہماری صلح ہوگئی اوربڑوں کے کہنے سے 101لوگوں کو کھانا بھی کھلایا،اس کے بعد بھی ہم میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے چلتے رہے،شوہر نے مجھے مارنا بھی شروع کردیا،سب گھر والوں کو بھی پتا تھا،سب کے سمجھانے کے باوجود بھی شوہر اسی طرح رہا،پھر2016-08-28 کومیری دوسری بیٹی پیدا ہوئی،پھر شوہر نے اکیلے میں مجھے ان الفاظ کے ساتھ کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ تیسری طلاق بھی دیدی،میں نے ساس کو بتایا،اس نے کسی سے پوچھاتھا کہ اکیلے میں طلاق نہیں ہوتی،اس لئے میں اپنی بیٹیوں کی خاطر رہنے لگی،شوہر میرے اور بچیوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تھا اور دھمکی دیتا رہتا تھا کہ میری طرف سے تم فارغ ہو،میں اپنے والدین کے پاس دو تین سال بعد ہی جاتی تھی۔

04-02-2023کو8:30بجے پھر طلاق کا لفظ کہا،میں نے اپنے اور بچیوں کے کپڑے پکڑے اور امی کی طرف آگئی،مہربانی فرماکر اس معاملے میں میری شرعی رہنمائی فرمائیں۔

شوہر کا بیان:

دارالافتاء کے نمبر پر شوہر سے رابطہ کیا تو اس نے مندرجہ ذیل بیان دیا:

پہلی مرتبہ میں نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو دو طلاقیں دی،جو مجھے اچھی طرح یاد ہے لیکن وہ بھی غلطی سے دے دی تھیں ۔طلاق دیتے وقت کوئی توڑ پھوڑیا خلافِ عادت کوئی قول یا فعل سرزد نہیں ہوا،اس کے  علاوہ میں نے طلاق نہیں دی بلکہ اپنی بیوی سے یہ کہتا تھا کہ میں نے تمہیں چھوڑ دینا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر بیوی نے واقعتاً  اپنے شوہر سے تیسری مرتبہ طلاق کے الفاظ سنے ہوں تو اس سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی ہے،جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا بیوی  کے لئے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے اگرچہ غصہ کی حالت میں دو طلاقیں دی تھیں لیکن شوہر کو طلاق کے الفاظ کا علم تھا  اور طلاق دیتے وقت کوئی خلاف عادت قول یا فعل بھی صادر نہیں ہوا اس لیے  یہ دونوں طلاقیں واقع ہوگئیں تھیں ، نیز طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے تو وہ اس کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے،مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی نے 2016-08-28 میں اکیلے میں شوہر سے طلاق کے الفاظ کہ "میں نے تمہیں طلاق دی” خود سنے تھے اس لیے ان الفاظ سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

نوٹ: یہ بات درست نہیں ہے کہ اکیلے میں طلاق واقع نہیں ہوتی، طلاق چاہے اکیلے میں دی جائے یا لوگوں کے سامنے دی جائے دونوں صورتوں میں واقع ہوجاتی ہے۔

رد المختار(4/439) میں ہے:

قلت: ‌وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اهـ. ملخصا من شرح الغاية الحنبلية

وفيه بعد اسطر

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

رد المختار(4/526) میں ہے:

والمرأة كالقاضى اذا سمعته أو اخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved