- فتوی نمبر: 13-169
- تاریخ: 17 اپریل 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ایک مکتبہ پر ملازمت کرتا ہوں اور ماہانہ تنخواہ لینا ہوں ۔مکتبہ والوں نے مجھے کہا ہے کہ جو کتابیں اسی مکتبہ کی ہیں ان کو بیچنے پر آپ کو کچھ کمیشن ملے گا لیکن اگر آپ ہمارے اس مکتبہ کی کتابوں کے علاوہ دوسرے مکتبوں کی کتابیں بیچیں اس کا نفع آپکا ہے ۔ مثلا مکتبہ دارالمعارف (جس پر میں کام کرتا ہوں )اس کی کتابوں کا نفع توہمارا ہو گا اور اس کے علاوہ کسی مکتبے کی کتابیں آپ رکھیں اور بیچیں وہ آپ کی ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ میں نے مکتبہ دارالمعارف کی کتاب کسی دوسرے مکتبہ مثلا احیاء العلوم کو بیچی تین سوپچاس روپے کی۔اور تین سو پچاس روپے ظاہر ہے مکتبہ دارالمعارف کو جائیں گے لیکن میں اگر مکتبہ احیاء العلوم سے تین سو پچاس روپے کے بجائے اتنے ہی پیسوں کی کوئی کتاب لے کر چار سو روپے میں بیچ دوں اور تین سو پچاس روپے مکتبہ دارالمعارف میں ڈال کر پچاس روپے خود رکھ لوں تو کیا یہ جائز ہے؟
یہ اس لیے پوچھا ہے کہ بعض دفعہ میں مکتبہ دارالمعارف کی کتابیں کسی دوسرے مکتبہ کو بیچتا ہوں میرے پاس کوئی گاہک ایسی کتابیں لینے آتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتیں بلکہ اسی مکتبہ سے مل سکتی ہے جس کو میں دارالمعارف کی کتابیں بیچ چکاہوں تو میں اس مکتبہ سے پیسے لینے کے بجائے گاہک کی مطلوبہ کتابیں لے لیتا ہوں جو مجھے مکتبہ کی وجہ سے تھوڑی سستی ملتی ہیں وہ گاہک کو مارکیٹ ریٹ پر بیچ کر مکتبہ دارالمعارف کے پیسے اس میں ڈال دیتا ہوں اور نفع خود رکھ لیتا ہوں تو کیا یہ عمل جائز ہے ؟
نوٹ: یہ سارا معاملہ مکتبہ دارالمعارف والوں کے علم میں ہے اور ان کی اجازت سے ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں سائل نے مکتبہ دارالمعارف کی کتاب مکتبہ احیاء العلوم کو مثلا تین سو پچاس روپے میں بیچی ۔مکتبہ احیاء العلوم نے تین سو پچاس روپے کے عوض میں مکتبہ دارالمعارف کو ایک کتاب دی جو مکتبہ دارالمعارف کی ہوئی ۔ملازم نے وہ کتاب مثلا چار سو روپے میں فروخت کی چونکہ اس صورت میں ملازم نے مکتبہ دارالمعارف کی کتاب بیچی ہے اس لیے ان کا نفع بھی مکتبہ دارالمعارف کا بنتا ہے نہ کہ ملازم کا ۔لیکن چونکہ مکتبہ دارالمعارف کو اس کا علم بھی ہے اور اس کی طرف سے اس کی اجازت بھی ہے اس لیے ملازم کے لیے یہ نفع رکھنا جائز ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved