- فتوی نمبر: 14-264
- تاریخ: 17 اپریل 2019
- عنوانات: مالی معاملات > غصب و ضمان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
درج ذیل مسئلہ میں شرعی رہنمائی درکار ہے:
ہمارے ادارے میں یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی ملازم صبح اپنی نوکری پر تین دن تک مقررہ وقت سے 16 منٹ تاخیر سے آتا ہے تو اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔اگر اسی طرح 6 دن لیٹ آئے تو دو دن اور اگر نو دن لیٹ آئے تو تین دن کی تنخواہ کٹے گی ،اسی ترتیب سے پورے مہینے کا حساب لگایا جاتا ہے ،اگر سالانہ چھٹیاں ہو تو ان چھٹیوں میں سے لیٹ آنے پر چھٹی کٹتی ہوں ورنہ تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔
جس شخص کی لیٹ آنے پر تنخواہ کٹتی ہے وہ اگر بعد میں لیٹ نہ آئے توتنخواہ واپس بھی کر دی جاتی ہے لیکن یہ کام سی، ای ،او صاحب کی مرضی پر ہی ہوتا ہے کہ وہ کس بندے کو اس کی اجازت دیتے ہیں اورکتنی دیتے ہیں۔ مثلا کسی کو کاٹی گئی تنخواہ کا 75 فیصد واپس مل جاتا ہے ،کسی کو پوری اور کسی کو کٹوتی کا نصف واپس مل جاتا ہے اور یہ کام بھی صرف ملازم کی درخواست پر ہی ہوتا ہے ورنہ نہیں۔کیا تاخیر کی صورت میں مذکورہ بالا ترتیب سے کٹوتی درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں تو شرعی اعتبار سے اس کا کیا حل ہو سکتا ہے؟
واضح رہے کہ تاخیر کے لیے مذکورہ بالا یا اس سے ملتے جلتے ضوابط عمومی طور پر کمپنیوں میں رائج اور معروف ہیں اور ان پرعمل درآمد کیا جاتا ہے اور یہ باتیں ملازمین کے علم میں بھی ہوتی ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تین دن تک سولہ منٹ کی تاخیر سے آنے پر پورے دن کی تنخواہ کی کٹوتی کرنایا سالانہ چھٹیوں میں سے پوری چھٹی کاٹنا جائز نہیں بلکہ صرف اتنی تنخواہ یا سالانہ چھٹیوں میں سے اتنی چھٹی کی کٹوتی کرسکتے ہیں جتنی ملازم نے تاخیر کی ہے ۔البتہ اگر سولہ منٹ کی تاخیر پر پورے دن کی کٹوتی کرکے بعد میں کسی وقت زائد کٹوتی کے بقدر رقم ملازم کو کسی بھی عنوان (نام) سے واپس کردی جائے تو پھر مذکورہ طریقہ درست ہے اگرچہ ملازم کو اس کا علم نہ ہو۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 82)
( المادة 425 ) : الأجيرالخاص يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة .
فی دررالحکام شرح مجلة الاحکا م،مادة:425،ص:387
اما الاجیر الذی یسلم نفسه بعض المدة فیستحق من الاجرة مایلحق ذلک البعض من الاجرة۔
فی الشامی:6/98
وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذهب عدم التعزیر باخذ المال ۔۔۔۔۔فی البزازیةان معنی التعزیر باخذ المال علی القول به امساک شیئ من ماله عنه مدة لینزجر ثم یعیده الحاکم الیه ،لاان یاخذه الحاکم لنفسه او لبیت المال کما یتوهمه الظلمة ،اذ لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی۔۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved