- فتوی نمبر: 19-72
- تاریخ: 25 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی خریداری کی جاتی ہے۔
** کی دکان کی دوسری منزل پر ایک کائونٹر باکس بنا ہوا ہے جس میں کیش رکھا جاتا ہے۔ باکس کچھ ایسے انداز سے بنایا گیا ہے کہ پہلے چابی لگانے سے ایک بڑا دراز کھل جاتا ہے اس بڑے دراز میں اندر ایک لاکر ہے اس کو کھولنے سے ایک چھوٹا دراز بھی کھل جاتا ہے، عموماً کیش اس میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس باکس سے تقریباً 5 لاکھ روپے کی رقم ملازم نے چوری کر لی۔
واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دن ** کے مالک نے اس لاکر میں کچھ رقم رکھی جس کی اگلے دن کسی کمپنی کو پیمنٹ کرنی تھی اور دن کو دکان کی مصروفیات میں مشغول رہا مغرب کی نماز کے لیے وقفہ کیا اور تمام ملازمین نماز کی ادائیگی کے لیے چلے گئے لیکن ایک ملازم دکان میں رہ گیا اور الیکٹرک سپلائی لائن لائٹس وغیرہ کو بند کیا اور اس دوران اس نے چوری کی واردات کی۔
جب دکان کا مالک مغرب کی نماز سے واپس آیا تو وہ ملازم کہنے لگا کہ U.P.S گرم ہونے کی وجہ سے لائٹ بند ہو جاتی ہے ذرا اس کو چیک کر لیں مالک نے سوچا کہ اس U.P.S کے ساتھ دو تین دفعہ پہلے بھی ایسا ہوا تھا تو U.P.S چیک کر کے آن کر دیا اور کچھ حساب، کتاب کر کے دوسری منزل پر گیا اور پیسوں والے باکس کو جیسے ہی کھولا تو رقوم بکھری پڑی تھی کیونکہ اگلے دن جن 500,000 روپے کی پیمنٹ کرنی تھی اس کو دونوں طرف سے ربڑ لگا کر رکھا تھا اور وہ سنگل بینڈ پر آ گیا تھا جب رقم کی گنتی کی گئی تو وہ پانچ لاکھ سے کم نکلی اور اس کے ساتھ دس لاکھ کی رقم بھی پڑی ہوئی تھی وہ بھی کم نکلی، اس تشویش ناک صورتحال میں سیکیورٹی کیمرے کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اسی دن مغرب کے وقت لائٹ کے بند ہوتے ہی یہ کام ہوا ہے اس وجہ سے اس ملازم کے بارے میں غالب گمان ہو گیا کہ اسی نے چوری کی ہے لیکن اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ پہلے اس سے تفتیش کی جائے اور کچھ اخلاقی دبائو ڈال کر اس کو ڈرایا، دھمکایا جائے۔ چنانچہ چھٹی کے وقت اس کو الگ سے بٹھا کر اسے سمجھایا گیا اور دھمکی بھی دی گئی کہ اگر تم یہ رقم واپس نہیں کرو گے تو پولیس اور عدالت تک جانا پڑے گا چنانچہ تب اس نے چوری کا اقرار کیا اور پوری روداد سنا دی اور چوری کردہ رقم واپسی کر دی۔
اس واقعہ کے ایک ہفتہ پہلے بھی ایک کمپنی والے نے فون کر کے بتایا تھا کہ ** نے پیمنٹ کی ادائیگی میں 5000 کے 13 نوٹ کم دیئے ہیں، جب کہ ** کے مالک کا خیال تھا کہ اسے پوری ادائیگی کر دی گئی تھی۔ لیکن اس کے پر اصرار مطالبے پر اس کو اس مطلوبہ رقم کی ادائیگی کی بھی حامی بھرلی تھی۔ اب جب اس ملازم کی چوری پکڑی گئی تو یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ یہ رقم (65000) بھی یہی ملازم اٹھا کے لے گیا تھا کیونکہ اس کے اخراجات اور عیاشی سے دوسرے ملازمین بھی حیران ہوتے تھے کہ پندرہ ہزار کا تنخواہ دار ملازم گھر کے مکمل اخراجات سمیت دکان پر آنے جانے کے لیے کریم ٹیکسی (کار سروس) استعمال کرتا ہے، اور 50,000 کا موبائل رکھا ہوا ہے اور ہر ہفتے شاپنگ کر کے گھر جاتا ہے۔
اسی طرح دکان کے مالک کا چونکہ معمول یہ تھا کہ روزانہ دکان بند کرتے وقت جتنے پیسے ہوتے تھے وہ اسی باکس میں رکھ کر چلا جاتا تھا اور اسے گننے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب اس چوری کے واقعہ کے بعد گزشتہ دنوں کے حساب سے غور و فکر کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ روزانہ کچھ نہ کچھ رقم کم ہوتی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملازم نے اس سے پہلے بھی کافی ساری رقم چرا لی ہو گی۔ جب کہ ملازم کا کہنا ہے کہ صرف اسی دن اس نے اپنی الماری کی چابی پیسوں والے باکس میں لگا کر چیک کیا تو اتفاقاً وہ دراز کھل گئی، اس لیے اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی پہلی اور آخری چوری تھی۔ اس سے پہلے کوئی رقم نہیں چرائی، اس سے پچھلی چوریاں منوانے کی غرض سے انتظامیہ نے یہ اقدام کیا کہ FIA والوں سے رابطہ کر کے انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا گیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اس کو حراست میں لے کر دو، تین دن میں ملازم سے اسٹام پیپر پر اپنے جرم کے اقرار کی تصدیق کرائی جائے گی اور پھر اسے تھانہ میں پولیس کے حوالہ کر دیا جائے گا۔
کیا مذکورہ صورت میں ** کو قانونی کارروائی کرنے کا حق حاصل ہے؟ اور اس ملازم سے ** کس حد تک نقصان کی تلافی کروا سکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
-1 مذکورہ صورت حال کے مطابق ** کمپنی کو قانونی کارروائی کرانے کا حق حاصل ہے۔
-2 نیز چوری ثابت ہونے پر نقصان کی تلافی میں حکم شرعی یہ ہے کہ اس نے جتنے پیسے چرائے ہوں وہ اس سے وصول کر لیے جائیں۔ تاہم مزید نقصان کی تلافی کرانے سے پہلے ضروری ہے کہ وہ بندہ یا تو خود چوری کا اقرار کر لے یا دو مسلمان شخص اس کی چوری کی گواہی دیں یا اور قرائن سے مثلاً سیکیورٹی کیمروں وغیرہ کے ذریعے سے اس کی چوری ثابت ہو جائے۔
(۱) الدرالمختار مع رد المحتار: (۴/۷۵):
للقاضي تعزير المتهم …… و ان لم يثبت عليه۔ (قوله للقاضي تعزير المتهم) ذکروا في کتاب الکفالة أن التهمة تثبت بشهادة مستورين أو واحد عدل… وکل تعزير للّٰه تعاليٰ يکفي فيه خبرالعدل لانه في حقوقه تعاليٰ يقضي بعلمه اتفاقا، ويقبل فيها الجرح المجرد کما مر، وعليه فما يکتب من المحاضر في حق إنسان يعمل به في حقوق الله تعالي۔ و من أفتي بتعزير الکاتب فقد أخطأ اه ملخصاً بناء عليه الخ
(۲) القرآن الکريم النساء (الاية ۲۹):
’’يا يها الذين آمنوا لاتأکلوا اموالکم بينکم بالباطل‘‘ الا أن تکون تجارة عن تراض منکم‘‘…… الخ
(۳) الموسوعة الفقهية الکويتية (۴۳/۳۴۶):
ولا خلاف بينهم کذلک في وجوب ضمان المسروق إذا تلف ولم يقم الحد علي السارق، لسبب يمنع القطع، کأخذالمال من غير حرز، أوکان دون النصاب أوقامت شپهة تدرأ الحد أونحوذلک، و حينئذٍ يجب علي السارق أن يرد مثل المسروق إن کان مثليا۔ و قيمته إن کان قيميا‘‘۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved