• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ملازمت سے فارغ کرنے کی پالیسی

استفتاء

اگر کمپنی کسی ملازم کو فارغ کرنا چاہے تو حکومتی قانون کے مطابق ایک مہینہ پہلے نوٹس دیتی ہے اور بغیر نوٹس کے فارغ کرنے کی صورت میں ایک مہینہ کی تنخواہ ملازم کو دی جاتی ہے اور اگر ملازم خود کمپنی کو چھوڑنا چاہے تو کمپنی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ ایک مہینہ پہلے نوٹس دے تاکہ اس کے واجبات اور حساب و کتاب کلیئر کیا جا سکے اور ایک مہینہ پہلے نوٹس نہ دینے کی صورت میں کمپنی ملازم کی ایک مہینہ کی تنخواہ ضبط کر سکتی ہے۔

ملازمت سے فارغ کرنے کی مذکورہ بالا پالیسی کا کیا حکم ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں حکومتی قانون کے مطابق پی کمپنی کا ایک مہینہ پہلے نوٹس دینا اور بغیر نوٹس کے فارغ کرنے کی صورت میں ایک مہینہ کی تنخواہ ملازم کو دینا شرعاً درست بلکہ ضروری ہے۔ البتہ ملازم کا ایک ماہ پیشگی نوٹس دئیے بغیر ملازمت چھوڑنا اگرچہ معاہدے کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے تاہم اس صورت میں اس کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹنا تعزیر مالی ہے جو کہ جائز نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔ اس کا متبادل حل یہ ہے کہ ملازم سے التزام بالتصدق کروا لیا جائے اس سلسلے میں درج ذیل عبارت معاہدہ میں شامل کر لی جائے۔ ’’میں اس بات کا التزام کرتا ہوں کہ اگر میں ایک ماہ پیشگی نوٹس دیئے بغیر ملازمت چھوڑ دی تو میں اپنی ایک ماہ کی تنخواہ کے بقدر رقم صدقہ کروں گا اور اس سلسلے میں کمپنی کو اختیار ہو گا میری تنخواہ سے اتنی رقم میری طرف سے فلاں خیراتی فنڈ میں جمع کر ادے۔‘‘

(۱) درر الحکام: (۸۷۱)

المواعيد بصور التعاليق تکون لازمة لانه يظهر حينئذٍ معنيٰ الالتزام والتعهد۔

(۲) السنن الکبري للبيهقي (کتاب الغصب: ۶/۱۰۰)

’’لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه منه‘‘۔

(۳) ردالمحتار (۴/۶۱)

مطلب في التعزير بأخذ المال۔ (قوله بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح، و عن أبي يوسف يجوز التغرير للسطان بأخذالمال و عندهما و باقي الأئمة لايجوز، و مثله في المعراج۔ وظاهره أن ذلک رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية ولا يفتي بهذٰا، لمافيه من تسليط الظلمة علي أخذ مال الناس فيأ کلونه‘‘۔

(۴)         رد المحتار: (۴/۶۱)

’’والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved