• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ملازمت سےریٹائرمنٹ پرملنےوالےفنڈز(پینشن،بیسک تنخواہ،جی پی فنڈوغیرہ )کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

درج ذیل صورت میں فتویٰ مطلوب ہے میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں۔ 1986 میں گورنمنٹ نوکری شروع ہوئی اور اب 2019 کے اپریل میں تقریباً 33 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ ہوئی ہے۔ ریٹائرمنٹ پر جو جو پیسہ ملا ہے اس کے متعلق فتویٰ چاہیئے کہ کیا وہ سب جائز ہے یا نہیں؟ انتہائی تفصیل اس کی معلوم کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ کلرک حضرات وغیرہ کا معاملہ ہوتا ہے لیکن اپنی بساط تک جس قدر معلوم ہو سکا وہ عرض خدمت ہے۔

ملنے والے پیسے کی پانچ اقسام ہیں:

پہلی قسم پینشن:

جو اب ہر ماہ ملا کرے گی تقریباً ایک لاکھ ہے۔ یہ کس کلیے سے نکالتے ہیں اس کا ہمیں کوئی علم نہیں۔

 دوسری قسم کمیوٹیشن (commutation):

تقریباً اکتالیس لاکھ ملی ہے۔ یہ وہ پیسہ ہے جو نوکری کے آخر پر ملازم کو ملتا ہے۔ اس کے کلیئے کا بھی علم نہیں کہ کس طرح نکالتے ہیں۔

 تیسری قسم بیسک تنخواہ (Basic Salary):

نوکری کے آخر پر ایک basic تنخواہ بطور انعام دیتے ہیں جو تقریباً 95 ہزار کے قریب بنی ہے۔ حقیقت میں یہ ہماری تنخواہ سے ہی دوران ملازمت "بہبود فنڈ” کے نام سے کاٹتے ہیں جس میں سے بچوں کو وظیفے وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔ اور یہ جبراً کاٹتے رہتے ہیں ہم اس کو روک نہیں سکتے۔

 چوتھی قسم جی پی فنڈ:

یہ بھی دوران ملازمت جبراً کاٹتے ہیں۔ اور آخر میں اس کو بڑھا کر دیتے ہیں۔ یعنی کل جتنا کٹا تھا اس سے زیادہ دیتے ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم یہ زیادتی کس کلیے سے کرتے ہیں آیا اسے وہ سود کہتے ہیں یا کچھ اور۔ لیکن اس جی پی فنڈ میں اتنی بات ہے کہ سنہ 2003 میں جب سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہوا تھا تو ایک فارم دیا گیا تھا جو پُر کر کے دینا تھا ، اس پر ایک خانہ تھا کہ آپ اس کٹوتی پر سود لینا چاہتے ہیں یا نہیں؟ تو وہ خانہ میں نے خالی چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد ہر ماہ کی تنخواہ سلپ پر "سود لگا ہوا” لکھ کر آیا کرتا تھا۔ اس کی رقم جو ملی ہے وہ تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ اس میں اصل کٹوتی کتنی ہے اور زیادتی کتنی ہے اور نہ ہی اتنی لمبی نوکری میں معلوم ہو سکتا ہے کیونکہ اتنا پرانا ریکارڈ ملنا ناممکن ہے۔

 پانچویں قسم گروپ انشورنس:

یہ بھی دوران ملازمت جبراً ہی کاٹی گئی رقم ہوتی ہے۔ اس کا اصول پہلے تو یہ تھا کہ ملازمت کے آخر پر ملازم کو تو کچھ نہیں ملتا تھا لیکن اگر دوران ملازمت انتقال ہو جاتا تو ورثاء کو کچھ رقم مل جاتی تھی اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنی۔ لیکن اب سب ملازموں نے سپریم کورٹ میں کیس کیا ہوا تھا کہ یہ چونکہ ہماری ہی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے لہذا ہمارا حق ہے جو ہمیں ملازمت کے آخر پر ملنی چاہیئے، اب کورٹ نے فیصلہ ملازمین کے حق میں دے دیا ہے۔ اس لئے اب ملازمت کے آخر پر یہ رقم ملتی ہے۔ گورنمنٹ نے اسے فکس کر دیا ہے کہ کس سکیل والے کو کتنی ملے گی۔ میرا چونکہ اٹھارہواں گریڈ تھا لہذا میری یہ رقم تقریباً اٹھارہ لاکھ کے قریب بنی ہے۔ معلومات کے مطابق یہ رقم بھی اصل کاٹی گئی رقم سے زیادہ ہوتی ہے۔ اصل کاٹی گئی رقم کو معلوم کرنا یہاں بھی ناممکن ہے۔

ان پانچ اقسام میں سے کون کون سی رقم میرے لیئے شرعاً جائز ہے؟ تاکہ حرام سے بچ کر اللّٰه تعالی کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکوں الحمد للہ پیسہ سب آج تک کرنٹ اکاؤنٹ میں ہی رکھا ہے۔

یہاں قریب ایک مقامی مفتی صاحب بہت اچھے ہیں ان سے جب پوچھا تو فرمایا کہ آپ کسی بڑے ادارے یا مفتی صاحب سے رابطہ کریں میں فتوی نہیں دیتا البتہ میری رائے یہ ہے کہ یہ سارا پیسہ جائز ہے۔ کیونکہ ایک تو کٹتا جبراً ہے دوسرا حقیقت میں یہ انعام ہے حکومت کی طرف سے کہ آپ نے اپنی ساری جوانی ان کی خدمت کی ہے اب یہ آپ کے بڑھاپے کا سہارا اور انعام ہے چاہے وہ اس کو انشورنس کہیں، فنڈ کہیں، سود کہیں، حلال کہیں، حرام کہیں، حقیقت میں تو بات صرف اتنی ہے کہ آپ نوکری کرتے ہیں اور وہ اس نوکری کے صلہ میں آپ کو پیسہ دیتے ہیں جس میں سے کچھ ہر ماہ تنخواہ کی صورت میں اور کچھ آخر پر، ویسے بھی اسلامی حکومت میں وظائف ہوتے ہیں اگر یہی پیسہ جو یہ کاٹتے ہیں ساتھ ساتھ ملتا رہے تو بھی انسان اس کو بڑھاتا ہی ہے بہرحال آپ کسی بڑے ادارہ سے پوچھیں۔ اس لئے اب آپ سے فتویٰ مطلوب ہے۔

وضاحت مطلوب : گروپ انشورنس والی رقم کا چیک کس کی جانب سے موصول ہوا؟ گورنمنٹ کی طرف سے یا انشورنس کمپنی کی طرف سے؟

جواب وضاحت:  یہ چیک نہیں ملتا بلکہ اس کے لئے ہمیں خود اپلائی کرنا پڑتا ہے۔ یعنی یہ رقم حاصل کرنے کے لئے ہم خود کاغذات بناتے ہیں کہ ہمیں یہ دیا جائے پھر ان کاغذات کو ضلعی اور تحصیل کے آفیسران پاس کر کے لاہور ہیڈ آفس بھیجتے ہیں۔ یہ ہیڈ آفس فنانس کے متعلق ہوتا ہے اور یہ حکومت کا ہی ہے۔ اس میں کوئی کمپنی شامل نہیں ہے۔ کیونکہ ہماری تنخواہ سے ہی حکومت یہ رقم کاٹتی ہے اور حکومت ہی دیتی ہے۔ اس طرح لاہور سے بھی منظوری ہونے کے بعد ہمارے ضلع میں واپس آتے ہیں کاغذات اور پھر کچھ مزید کارروائی کرنے کے بعد بینک اکاؤنٹ میں یہ رقم آ جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ پینشن کی رقم چونکہ حکومت کی طرف سے ملازم کو ہدیے کے طور پر دی ج [11:27 AM, 10/21/2019] mubshairraja0: شق وار جواب سے قبل تمہید کے طور پر چند ضابطوں کو مدنظر رکھیں

1۔ کسی مکتبہ کا نام اور لوگو استعمال کرنے میں گاہک کو دھوکا دینا ہے کیونکہ گاہک خاص اس مکتبہ پر اعتماد کرتا ہے اور اسی کی کتاب چاہتا ہے جبکہ ناشر ثانی اسے دھوکہ دے کر درحقیقت کسی اور مکتبہ کی کتاب دے رہا ہے

2۔ کسی کی کمپوزنگ و ڈیزائننگ بلا اجازت استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ پہلے شخص نے کمپوزنگ اور ڈیزائننگ بلا قیمت حاصل نہیں کی بلکہ پیسے دے کر حاصل کی ہے

3۔ کسی کتاب کو غیر معمولی حد تک اتنا مہنگا کردینا کہ جس سے عامۃ الناس کو حرج لاحق ہونے لگے کسی مکتبہ والے کے لئے مناسب نہیں ہے لیکن اس کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ دیگر ناشرین کی

4۔ رائلٹی یا حق تالیف و نشروشاعت ایسا حق نہیں ہے کہ جو قابل فروخت ہو یا جس کی بنا پر دوسروں پر پابندی لگائی جا سکے

5۔ جس کتاب کی طرف شروع میں کوئی ناشر متوجہ نہ ہو پھر جب کتاب چل نکلے تو ہر شخص چھاپنا چاہے جبکہ ناشر اول کی طرف سے رسد میں کمی بھی نہ ہوتو ایسے میں بلااجازت کتاب چھاپنے والوں کو بازار میں اخلاقی طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اخلاقی گراوٹ کا شکار سمجھا جاتا ہے اور ضابطہ ہے کہ ما راہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن عامۃالمسلمین جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہوتا ہے اور جس کام کو برا سمجھیں وہ اللہ تعالی کے نزدیک برا ہوتا ہے

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے

1۔ شرعاً درست نہیں ہے (تفصیل کیلئے دیکھئے فقہی مضامین مؤلف حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب)

2۔ خرابی سے خالی نہیں ہے الا یہ کہ ناشر اول کی جانب سے کتاب دستیاب نہ ہو تو اپنی کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کے ساتھ چھاپی جائے

3۔ جس صورت میں گاہک کو دھوکا ہو وہاں تو بالکل جائز نہیں ہے اور جس صورت میں گاہک کو دھوکا نہ ہو اور ڈیزائننگ استعمال کی گئی ہو تو گاہک کو دھوکہ نہ ہونے کی وجہ سے جائز تو ہے لیکن خلاف ورع ہے

[11:28 AM, 10/21/2019] mubshairraja0: 4۔ جائز ہے لیکن خلاف ورع ہےاتی ہےاس لیے اس کا لینا جائز ہے[1]۔

۲۔ کمیوٹیشن (commutation) بھی پینشن کی ایک قسم ہے جو ملازم کو ہدیے کے طور پر دی جاتی ہے۔ فرق بس  اتنا ہے کہ کمیوٹیشن یکمشت ملتی ہے اور پینشن ماہانہ ملتی ہے[2]، لہذا اس کا لینا بھی جائز ہے۔

۳۔ ریٹائرمنٹ پر بیسک تنخواہ (basic salary) بھی ہدیے کے طور پر دی جاتی ہے اس لیے اس کا لینا بھی جائز ہے۔

[1] احسن الفتاوٰی (302/9) میں ہے:

پینشن تنخواہ کا جزو نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے انعام و تبرع ہے۔۔۔

فتاویٰ محمودیہ (342/23) میں ہے:

سوال:  پینشن ریٹائر ہونے کے بعد  گورنمنٹ سے ملتی ہے، وہ ملازم کےلیےجائز ہے یا نہیں ؟

جواب: یہ پینشن درست ہے اس کے لیے اس کا کھانا بھی درست ہے۔

حاشیہ: پینشن حکومت کی طرف سے ہدیہ اور انعام ہے اس کا لینا اور کھانا درست ہے۔

[2] Meaning of Commuted Pension:- When any lump-sum payment is made in lieu of periodical payment of pension then it will called as commuted pension.

۴۔ مذکورہ صورت میں چونکہ جی پی فنڈ کی کٹوتی جبری تھی اس لیے (الف) تنخواہ سے کٹی ہوئی رقم، (ب) ادارے سے ملائی گئی رقم اور (ج) ان دونوں پر ملنے والی اضافی رقم تینوں کا لینا جائز ہے

[1] فتاویٰ عثمانی (308/3) میں ہے:

الجواب: پراویڈنٹ فنڈ پر جو زیادہ رقم محکمے کی طرف سے دی جاتی ہے وہ شرعا سود نہیں ہے لہذا اس کا لینا اور استعمال میں لانا جائز ہے۔ جبری اور اختیاری فنڈ دونوں کا حکم یہی ہے البتہ جو رقم اپنے اختیار سے کٹوائی گئی ہو اس پر ملنے والی زیادتی کو احتیاطا صدقہ کر دیں تو بہتر ہے

کفایت المفتی (95/8) میں ہے:

الجواب: پراویڈنٹ فنڈ میں نصف رقم عطیہ ہوتی ہے اور نصف ملازم کی تنخواہ میں سے وضع کی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی ملازم کے قبضے میں آنے سے پہلے وضع کر لی جاتی ہے اس لئے اس کا سود اور نصف رقم عطیہ کا سود دونوں مل کر عطیہ کا حکم لے لیتی ہے اور نصف رقم وضع شدہ سے زائد جو رقم ملتی ہے وہ سب عطیہ ہی قرار پاتی ہے۔ بینک کا سود اس سے مختلف ہے۔ دونوں میں وجہ فرق یہ ہے کہ بینک میں اپنے قبضے سے نکال کر رقم جمع کی جاتی ہے اس کا سود حقیقتاً سود ہوتا ہے۔

جواہر افقہ (548/4) میں ہے:

(ب) اگر آجر بھی پراویڈنٹ فنڈ میں اپنی جانب سے کچھ رقم کا اضافہ کرے تو صورتحال کیا ہوگی؟

ج:اس سے بھی مذکورہ صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ آجر جس رقم کا اپنی طرف سے اضافہ کر رہا ہے وہ اس کی طرف سے تبرع (ایک طرح کا انعام) ہے۔

 

پراویڈنٹ فنڈ میں ہونے والے اضافے کاشرعی حکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سائل ایک پرائیویٹ ٹیلی کام کمپنی میں ملازمت کرتا ہے۔  ہر ماہ  سائل کی تنخواہ سے تقریباً 10% کٹوتی ہوتی ہے جو کمپنی کے پراویڈنٹ فنڈ کے کھاتے میں چلی جانی ہے۔ کمپنی بھی اتنی ہی مقدار کی رقم اپنی طرف سے اس فنڈ میں ڈالتی ہے، ہر ماہ کی تنخواہ کی رسید میں یہ کٹوتی اس طرح دکھائی جاتی ہے:

حصہ نمبر 1: ملازم کی طرف سے دیا گیا روپیہ: x……..

حصہ نمبر 2: کمپنی کی طرف سے شامل کیا گیا روپیہ:x…

حصہ نمبر 3: سود کی مد میں حصہ آنے والا روپیہ:x……

4۔ کل رقم جو ملازم کے حصہ میں آئے گی (حصہ نمبر 1 + حصہ نمبر 2 + حصہ نمبر 3)۔

حصہ نمبر 1 میں ملازم کو اختیار ہے کہ وہ یہ حصہ سال میں ایک دفعہ نکلوا سکتا ہے۔ مگر حصہ نمبر 2 اور حصہ نمبر 3 ملازم کو ملازمت چھوڑنے کی صورت میں ہی ملیں گے۔

اس کے علاوہ کمپنی چھوڑنے پر ملازم کو Gratuity کی مد میں بھی کچھ رقم دی جاتی ہے جو کہ (آخری ماہانہ رقم x مجموعی سروس کے سال) کے حساب سے نکالی جاتی ہے۔

سوالات درج ذیل ہیں:

1۔ کیا حصہ نمبر 1 پر ہر سال زکوٰۃ دینا ضروری ہے اگرچہ ملازم اس حصہ کو سال میں کمپنی کے کھاتے سے وصول نہ کرے؟

2۔ حصہ نمبر 2 اور حصہ نمبر 3 پر کمپنی چھوڑنے سے پہلے اور  پیسہ آنے سے پہلے زکوٰۃ واجب ہے؟

3۔ کیا ملازم کمپنی چھوڑنے کی صورت میں حصہ نمبر 2 لے سکتا ہے؟

4۔ کیا ملازم کمپنی چھوڑنے کی صورت میں حصہ نمبر 3 لے سکتا ہے؟

5۔ اگر ملازم حصہ نمبر 3 نہیں لے سکتا تو ایک ضمنی سوال ہے:

الف: جب ملازم کو Gratuityکی رقم ملے گی تو اس رقم پر حکومت انکم ٹیکس وصول کرے گی۔ کیا ملازم حصہ نمبر 3 سے انکم ٹیکس کے برابر رقم لے سکتا ہے؟ اور باقی ماندہ رقم کو بغیر ثواب کی نیت سے کسی کو دے سکتا ہے؟

نوٹ: i۔ ملازم کو تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی کرانا لازمی ہے۔

ii۔ ملازم کو یہ کلی اختیار حاصل ہے کہ وہ سود کی مد میں جمع شدہ رقم لے یا نہ لے۔ سائل کے کھاتے میں فی الحال سود کی مد میں جمع شدہ رقم ہے۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

وضاحتیں: 1۔ ملازم سال میں ایک دفعہ اپنا حصہ نکلوا سکتا ہے، اپنا حصہ نکلوانے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے۔

2۔ سود کا حساب کل رقم پر کیا جاتا ہے (حصہ نمبر1 اور حصہ نمبر2)۔ اگر ملازم ہر سال اپنی جمع شدہ رقم نکلوالے (حصہ نمبر1) تو اس کے حصہ میں نسبتاً سود کم آئے گا، اگر وہ اپنی رقم نہ نکلوائے۔ کمپنی کو جو کل سود موصول ہوتا ہے، وہ ملازم کی طرف سے فنڈ میں ڈالی گئی، کل رقم کے تناسب سے ہوتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ وصول نہ کرنے کی صورت میں زکوٰۃ واجب تو نہیں، لیکن اگر گنجائش ہو تو ادا کر دینا بہتر ہے۔

2۔ نہیں۔

3۔ لے سکتا ہے۔

4۔ لے سکتا ہے۔

5۔  چونکہ مذکورہ صورت میں ملازم حصہ نمبر 3 کی رقم لے سکتا ہے، اس لیے اس ضمنی سوال کے جواب کی ضرورت نہیں۔

في البزازية:

ان موسراً والمعجل قدر النصاب لا يجوز عندهما وبه يفتى احتياطاً وعند الإمام: يجوز مطلقاً، اه. قال في السراج: والخلاف منبي على أن المهر في الذمة ليس بنصاب عنده وعندهما نصاب اه، نحر.

قلت لعل وجه الأول كون دين المهر دين ضعيفاً لأنه ليس بدل مال، ولهذا لا تجب زكاته حتى يقبض ويحول عليه حول جديد فهو قبل القبض لم ينعقد نصاباً في حق الوجوب فكذا في حق جواز الأخذ … فتأمل. (3/ 341)

 

۵۔ مذکورہ صورت میں چونکہ گروپ انشورنس خود حکومت ادا کر رہی ہے لہٰذا اس کی حقیقیت یہ ہے کہ وہ تنخواہ سے کٹی ہوئی رقم اور  حکومت کی جانب سے ملائی گئی اضافی انعامی رقم کا مجموعہ ہے[1]۔ لہٰذا اس کا لینا بھی جائز ہے۔

[1]فتاویٰ عثمانی (338/3) میں ہے:

جواب: گروپ انشورنس کے بارے میں چونکہ سوالات مختلف اطراف سے آرہے تھے اس لیے ہم نے اس کے وہ مطبوعہ قواعد منگا کر دیکھے جو حکومت کی طرف سے طے کیے گئے تھے ان سے ہمیں مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے:

1۔ یہ کٹوتی جبری ہے اگر کوئی شخص کسی کو اپنا وصی نامزد نہ کرے تب بھی رقم کٹے گی اور اس کی موت کے بعد کسی مناسب رشتہ دار کو دی جائے گی۔

2۔ یہ رقم تنخواہ میں سے تنخواہ کی ادائیگی سے قبل کاٹی جائے گی تنخواہ دینے کے بعد ملازم از خود نہیں دے گا۔

3۔ کاٹی ہوئی رقمیں کسی بیمہ کمپنی کو دینے کے بجائے ان سے ایک فنڈ قائم کیا جائے گا جس سے تجارت کی جائے گی اور اس سے حاصل ہونے والا منافع متوفیٰ ملازمین کے رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے گا۔

گروپ انشورنس کے بارے میں ہمارا پہلا جواب انہیں تین بنیادوں پر مبنی تھا لیکن آپ نے جو صورت لکھی ہے اس میں یہ تینوں باتیں مفقود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سول ملازمین اور فوجی ملازمین کے قواعد میں حکومت نے کوئی فرق رکھا ہو بہر حال جو صورت آپ نے لکھی ہے اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو اس اسکیم میں حصہ دار بننا بلاشک وشبہ ناجائز ہے اور اگر کوئی شخص غلطی سے حصہ دار بن گیا ہو تو وہ یا اس کا وصی صرف اپنی اصل رقم وصول کرسکے گا۔ جو زیادتی دی جائے گی اس کا لینا ناجائز ہوگا۔ کیونکہ اس صورت میں اور بیمہ زندگی میں شرعی احکام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں اور اس میں سود و قمار پایا جاتا ہے۔

رہی یہ بات کہ اس سکیم کے فوائد کو جائز طور پر کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے سو اس کا طریقہ یہ ہے کہ تمام ملازمین اپنی مرضی سے بلا جبرو اکراہ ایک رضاکارانہ امداد باہمی فنڈ قائم کریں اور اس میں اپنی خوشی سے تنخواہ کا کوئی حصہ ہرماہ دیا کریں جو شخص اس میں شریک نہ ہونا چاہے اسے مجبور نہ کیا جائے پھر فنڈ کی جمع شدہ رقم کو کسی جائز تجارت میں لگائیں اس طرح فنڈ کی رقم میں اضافہ ہوتا رہے اس کے بعد اس سے مرنے والے ملازمین کے پسماندگان کی امداد کی جائے اس میں یہ شرط رکھی جاسکتی ہے کہ یہ امداد صرف ان لوگوں کے ورثہ کو دی جائے گی جو فنڈ کے ممبر ہوں گے اگر مسلمان ملازمین کوشش کرکے اسکیم کو بدلوا کر شریعت کے مطابق بنائیں تو اجر عظیم ہوگا۔ لیکن بہتر یہ ہوگا کہ اس کے بناتے وقت مستند مفتیوں سے روبرو مشورہ کر لیا جائے تاکہ پھر کوئی شرعی قباحت پیدا نہ ہو۔

 

تبویب:

۔۔۔۔۔ (13- 14- 15) انشورنس کی مد میں جو رقم موصول ہوئی وہ چونکہ انشورنس کمپنی کی جانب سے جاری ہوئی ہے اور چیک بھی کمپنی کا آیا ہے، لہذا ضابطے کے مطابق جتنی رقم  مرحوم کی تنخواہ میں سے انشورنس کی مد میں جبراً کٹی ہے اس میں تو وراثت جاری ہو گی۔ باقی کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ہو گا۔                                 فتویٰ نمبر: 6/157

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved