- فتوی نمبر: 16-376
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
درج ذیل صورت میں فتویٰ مطلوب ہے میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں۔ 1986 میں گورنمنٹ نوکری شروع ہوئی اور اب 2019 کے اپریل میں تقریباً 33 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ ہوئی ہے۔ ریٹائرمنٹ پر جو جو پیسہ ملا ہے اس کے متعلق فتویٰ چاہیئے کہ کیا وہ سب جائز ہے یا نہیں؟ انتہائی تفصیل اس کی معلوم کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ کلرک حضرات وغیرہ کا معاملہ ہوتا ہے لیکن اپنی بساط تک جس قدر معلوم ہو سکا وہ عرض خدمت ہے۔
ملنے والے پیسے کی پانچ اقسام ہیں:
پہلی قسم پینشن:
جو اب ہر ماہ ملا کرے گی تقریباً ایک لاکھ ہے۔ یہ کس کلیے سے نکالتے ہیں اس کا ہمیں کوئی علم نہیں۔
دوسری قسم کمیوٹیشن (commutation):
تقریباً اکتالیس لاکھ ملی ہے۔ یہ وہ پیسہ ہے جو نوکری کے آخر پر ملازم کو ملتا ہے۔ اس کے کلیئے کا بھی علم نہیں کہ کس طرح نکالتے ہیں۔
تیسری قسم بیسک تنخواہ (Basic Salary):
نوکری کے آخر پر ایک basic تنخواہ بطور انعام دیتے ہیں جو تقریباً 95 ہزار کے قریب بنی ہے۔ حقیقت میں یہ ہماری تنخواہ سے ہی دوران ملازمت “بہبود فنڈ” کے نام سے کاٹتے ہیں جس میں سے بچوں کو وظیفے وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں۔ اور یہ جبراً کاٹتے رہتے ہیں ہم اس کو روک نہیں سکتے۔
چوتھی قسم جی پی فنڈ:
یہ بھی دوران ملازمت جبراً کاٹتے ہیں۔ اور آخر میں اس کو بڑھا کر دیتے ہیں۔ یعنی کل جتنا کٹا تھا اس سے زیادہ دیتے ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم یہ زیادتی کس کلیے سے کرتے ہیں آیا اسے وہ سود کہتے ہیں یا کچھ اور۔ لیکن اس جی پی فنڈ میں اتنی بات ہے کہ سنہ 2003 میں جب سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہوا تھا تو ایک فارم دیا گیا تھا جو پُر کر کے دینا تھا ، اس پر ایک خانہ تھا کہ آپ اس کٹوتی پر سود لینا چاہتے ہیں یا نہیں؟ تو وہ خانہ میں نے خالی چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد ہر ماہ کی تنخواہ سلپ پر “سود لگا ہوا” لکھ کر آیا کرتا تھا۔ اس کی رقم جو ملی ہے وہ تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ اس میں اصل کٹوتی کتنی ہے اور زیادتی کتنی ہے اور نہ ہی اتنی لمبی نوکری میں معلوم ہو سکتا ہے کیونکہ اتنا پرانا ریکارڈ ملنا ناممکن ہے۔
پانچویں قسم گروپ انشورنس:
یہ بھی دوران ملازمت جبراً ہی کاٹی گئی رقم ہوتی ہے۔ اس کا اصول پہلے تو یہ تھا کہ ملازمت کے آخر پر ملازم کو تو کچھ نہیں ملتا تھا لیکن اگر دوران ملازمت انتقال ہو جاتا تو ورثاء کو کچھ رقم مل جاتی تھی اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنی۔ لیکن اب سب ملازموں نے سپریم کورٹ میں کیس کیا ہوا تھا کہ یہ چونکہ ہماری ہی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے لہذا ہمارا حق ہے جو ہمیں ملازمت کے آخر پر ملنی چاہیئے، اب کورٹ نے فیصلہ ملازمین کے حق میں دے دیا ہے۔ اس لئے اب ملازمت کے آخر پر یہ رقم ملتی ہے۔ گورنمنٹ نے اسے فکس کر دیا ہے کہ کس سکیل والے کو کتنی ملے گی۔ میرا چونکہ اٹھارہواں گریڈ تھا لہذا میری یہ رقم تقریباً اٹھارہ لاکھ کے قریب بنی ہے۔ معلومات کے مطابق یہ رقم بھی اصل کاٹی گئی رقم سے زیادہ ہوتی ہے۔ اصل کاٹی گئی رقم کو معلوم کرنا یہاں بھی ناممکن ہے۔
ان پانچ اقسام میں سے کون کون سی رقم میرے لیئے شرعاً جائز ہے؟ تاکہ حرام سے بچ کر اللّٰه تعالی کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکوں الحمد للہ پیسہ سب آج تک کرنٹ اکاؤنٹ میں ہی رکھا ہے۔
یہاں قریب ایک مقامی مفتی صاحب بہت اچھے ہیں ان سے جب پوچھا تو فرمایا کہ آپ کسی بڑے ادارے یا مفتی صاحب سے رابطہ کریں میں فتوی نہیں دیتا البتہ میری رائے یہ ہے کہ یہ سارا پیسہ جائز ہے۔ کیونکہ ایک تو کٹتا جبراً ہے دوسرا حقیقت میں یہ انعام ہے حکومت کی طرف سے کہ آپ نے اپنی ساری جوانی ان کی خدمت کی ہے اب یہ آپ کے بڑھاپے کا سہارا اور انعام ہے چاہے وہ اس کو انشورنس کہیں، فنڈ کہیں، سود کہیں، حلال کہیں، حرام کہیں، حقیقت میں تو بات صرف اتنی ہے کہ آپ نوکری کرتے ہیں اور وہ اس نوکری کے صلہ میں آپ کو پیسہ دیتے ہیں جس میں سے کچھ ہر ماہ تنخواہ کی صورت میں اور کچھ آخر پر، ویسے بھی اسلامی حکومت میں وظائف ہوتے ہیں اگر یہی پیسہ جو یہ کاٹتے ہیں ساتھ ساتھ ملتا رہے تو بھی انسان اس کو بڑھاتا ہی ہے بہرحال آپ کسی بڑے ادارہ سے پوچھیں۔ اس لئے اب آپ سے فتویٰ مطلوب ہے۔
وضاحت مطلوب : گروپ انشورنس والی رقم کا چیک کس کی جانب سے موصول ہوا؟ گورنمنٹ کی طرف سے یا انشورنس کمپنی کی طرف سے؟
جواب وضاحت: یہ چیک نہیں ملتا بلکہ اس کے لئے ہمیں خود اپلائی کرنا پڑتا ہے۔ یعنی یہ رقم حاصل کرنے کے لئے ہم خود کاغذات بناتے ہیں کہ ہمیں یہ دیا جائے پھر ان کاغذات کو ضلعی اور تحصیل کے آفیسران پاس کر کے لاہور ہیڈ آفس بھیجتے ہیں۔ یہ ہیڈ آفس فنانس کے متعلق ہوتا ہے اور یہ حکومت کا ہی ہے۔ اس میں کوئی کمپنی شامل نہیں ہے۔ کیونکہ ہماری تنخواہ سے ہی حکومت یہ رقم کاٹتی ہے اور حکومت ہی دیتی ہے۔ اس طرح لاہور سے بھی منظوری ہونے کے بعد ہمارے ضلع میں واپس آتے ہیں کاغذات اور پھر کچھ مزید کارروائی کرنے کے بعد بینک اکاؤنٹ میں یہ رقم آ جاتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ پینشن کی رقم چونکہ حکومت کی طرف سے ملازم کو ہدیے کے طور پر دی جاتی ہےاس لیے اس کا لینا جائز ہے۔
۲۔ کمیوٹیشن (commutation) بھی پینشن کی ایک قسم ہے جو ملازم کو ہدیے کے طور پر دی جاتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ کمیوٹیشن یکمشت ملتی ہے اور پینشن ماہانہ ملتی ہے، لہذا اس کا لینا بھی جائز ہے۔
۳۔ ریٹائرمنٹ پر بیسک تنخواہ (basic salary) بھی ہدیے کے طور پر دی جاتی ہے اس لیے اس کا لینا بھی جائز ہے۔
۴۔ مذکورہ صورت میں چونکہ جی پی فنڈ کی کٹوتی جبری تھی اس لیے (الف) تنخواہ سے کٹی ہوئی رقم، (ب) ادارے سے ملائی گئی رقم اور (ج) ان دونوں پر ملنے والی اضافی رقم تینوں کا لینا جائز ہے۔
۵۔ مذکورہ صورت میں چونکہ گروپ انشورنس خود حکومت ادا کر رہی ہے لہٰذا اس کی حقیقیت یہ ہے کہ وہ تنخواہ سے کٹی ہوئی رقم اور حکومت کی جانب سے ملائی گئی اضافی انعامی رقم کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا اس کا لینا بھی جائز ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved