• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ملازمین کا کارخانے میں جماعت کروانا

استفتاء

ہمارا ایک کارخانہ ہے اور اُس میں ہمارے تقریباً 7 یا 8 ملازم ہیں۔ تو مسئلہ یہ  ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو 3یا 4لوگ نماز پڑھنے جاتے ہیں، باقی نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں وہ پھر کافی دیر لگاتے ہیں کوئی کہیں کوئی کہیں نکل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کام میں حرج ہوتا ہے۔

ہماری خواہش یہ ہے کہ کارخانے  میں 1مخصوص جگہ ہے جہاں پر نماز باجماعت ہونے کی صورت موجود ہے اور وہ صرف اُسی کے لیے مختص ہے۔ اس صورت میں یہ بھی فائدہ ہو سکتا ہے کہ جو 3،4 ساتھی نماز نہیں پڑھتے وہ بھی پڑھنے والے بن جائیں گے اور کام میں بھی کوئی حرج نہیں آئے گا اور مسجد کارخانے سے 3،4گلیوں کے فاصلے پر ہے۔

اب ہم چاہتے ہیں کہ ایسی صورت بن جائے کہ کارخانہ میں باجماعت نماز ہوجایا کرے   تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ کیونکہ پھر کچھ کاریگر  دیر لگاتے ہیں اور کچھ مسجد میں ٹھہرنے کی خواہش کرتے ہیں، کچھ جاتے ہی نہیں ہیں۔ شریعت کی کیا رائے ہے؟

کیونکہ کارخانے میں 2،3 سال پہلے جماعت ہوتی تھی تو پھر یہ بات دیکھنے کو ملی کہ سارے ہی نماز پڑھتے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اصل طریقہ تو یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں کارخانہ بند کر دیا جائے اورسب ملازمین مسجد جاکر نماز باجامعت ادا کریں تاہم اگر ایسا کرنے میں مشکل ہو تو   جو ملازمین مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا چاہتے ہوں انہیں نہ روکا جائے اور جو ملازمین مسجد میں نہیں جاتے ان کے لیے کارخانے میں ہی نماز باجماعت کا نظم بنا لیا جائے۔

نوٹ: ملازمین کے مسجد میں جانے کی صورت میں دیر لگانے کا یہ حل نکالا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے ایک معقول وقت مقرر کر دیا جائے اگر اس وقت سے تاخیر کی تو اس تاخیر کے بقدر کٹوتی ہوگی۔

شامی(2/290) میں ہے

(واقلها اثنان) واحد مع الامام ولو مميزا او ملکا او جنيا في مسجد او غيره

قوله (في مسجد او غيره) قال في القنية و اختلف العلماء في اقامتها في البيت الاصح انها کاقامتها في المسجد الا فى الافضلية

وايضاٍ فيه(2/293)

فلا تجب علي مریض مقعد و زمن و مقطوع يد و رجل من خلاف مفلوج و شيخ کبير عاجز و اعمي و لاعلي من حال بينه و بينها مطر و طين و برد شديد و ظلمة کذالک و ريح ليلا و لانهارا و خوف علي ماله. قوله: و خوف علي ماله: اي من لص و نحوه اذا لم يمکنه غلق الدکان او البيت مثلاً و منه خوفه علي تلف طعام قي قدر او خبز في تنور و انظر هل التقييد بماله للاحتراز عن مال غيره؟ و الظاهر عدمه: لان له قطع الصلاة له و لاسيما ان کان امانة عنده کوديعة او عارية او رهن ممايجب عليه حفظه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved