• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ملازمین کے تنازعات اور سزا کا معیار

استفتاء

کمپنی میں اگر ملازمین کا آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا ہو جائے تو ایڈمن کے دو حضرات فریقین کو بلا کر فیصلہ کرتے ہیں اور کوشش کر کے ان کے درمیان صلح کروائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کسی فریق پر جرمانہ وغیرہ نہیں ڈالا جاتا۔

پی کمپنی میں بعض ملازمین ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتے انہیں بار بار بتا دیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ لاپرواہی اور غفلت سے کام لیتے ہیں، ایسی صورت میں کمپنی انتظامیہ چاہتی ہے کہ انہیں تنبیہ کرنے کے لیے کوئی سزا بھی دینی چاہئے، لیکن کس جرم کی کتنی سزا دی جائے اس کا کوئی معیار (جو شریعت کے مطابق ہو) کمپنی کے سامنے واضح نہیں ہے۔

-1            ملازمین میں صلح کرواتے وقت کن امور کو مدِ نظر رکھنا چاہئے؟

-2            کسی ملازم کی باربار لاپرواہی اور غفلت کی صورت میں شرعاً اسے کس حد تک سزا دی جاسکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)

اگر ملازمین کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو جائے تو جس طرح کمپنی مالکان یا متعلقہ شعبے کے آفیسرز حضرات کے لیے ممکن ہو تنازع کو حل کر کے صلح کرانے کی کوشش کریں، جس میں درج ذیل امور کا خیال رکھیں:

۱۔ لڑائی کرنے والے فریقین کی صحیح تحقیق کرائی جائے، تاکہ کسی ملازم کو بے گناہ لڑائی کے معاملے میں شامل نہ کیا جائے۔

۲۔ ہر فریق کی بات مکمل سنی جائے، اگر ہر ایک سے تحریری بیان لیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔

۳۔             صلح عدل کے ساتھ ہو، کسی فریق پر ظلم نہ ہو، یعنی صلح میں جانبداری نہ ہو۔

۴۔             مظلوم فریق کو اس کا حق دلایا جائے۔

۵۔             غلطی کی نوعیت معلوم کرکے اس کے مطابق سزا بھی دی جاسکتی ہے، تاکہ آئندہ کے لیے تنبیہ ہو۔ لیکن سزا میں جسمانی سزا یا مالی جرمانہ لگانا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ الاؤنسز یا سالانہ انکریمنٹ سے محروم کیا جاسکتا ہے۔

۶۔ آئندہ کے لیے فریقین سے تحریری وعدہ لیا جائے کہ پھر ایسا نہیں کریں گے، ورنہ ان کی ملازمت یا الاؤنسز وغیرہ ختم کردیے جائیں گے۔

(2)

ملازم اگر مسلسل غفلت اور لاپرواہی سے کام لے رہا ہو تو اس پر مالی جرمانہ لگانا یا جسمانی سزا دینا تو جائز نہیں ہے، البتہ ضابطہ کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ایک صورت یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ اس کی ملازمت ختم کردی جائے اور اس کے ساتھ دوبارہ نیا معاہدہ (تجدید معاہدہ) کرتے وقت کچھ وقت کے لیے اس کی تنخواہ کم مقرر کردی جائے۔

دوسری صورت یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ سالانہ الاؤنسز اور انکریمنٹ سے اس کو محروم کریا جائے۔

(1)

(۱) الحجرات: (۹،۱۰)

و ان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فاصلحوا بينهما فان بغت احداهما علي الاخري فقاتلوا التي تبغي حتي تفي ٔ الي امر الله فان فاء ت فاصلحوا بينهما بالعدل و اقسطوا ان الله يحب المقسطين۔  انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بين اخويکم و اتقوا الله لعلکم ترحمون۔

(۲) النساء: (۱۲۸)

و الصلح خير۔

(2)

(۱) السنن الکبري للبيهقي: (کتاب الغصب: ۶/۱۰۰)

’’لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه منه‘‘۔

(۲) ردالمحتار: (۴/۶۱)

مطلب في التعزير بأخذ المال۔ (قوله بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح، و عن أبي يوسف يجوز التعزير للسطان بأخذالمال و عندهما و باقي الأئمة لايجوز، و مثله في المعراج۔ وظاهره أن ذلک رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية ولا يفتي بهذٰا، لمافيه من تسليط الظلمة علي أخذ مال الناس فيأ کلونه‘‘۔

(۳)         رد المحتار: (۴/۶۱)

’’والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال‘‘   

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved