- فتوی نمبر: 28-232
- تاریخ: 03 نومبر 2022
- عنوانات: مالی معاملات > لقطہ
استفتاء
ایک شخص کو کسی وقت میں سونے کی ایک انگوٹھی اپنے گھر کے دروازے سے ملی،کئی سال گذر گئے لیکن کوئی شخص انگوٹھی کی تلاش میں نہ آیا تو انگوٹھی اٹھانے والا شخص اسے بازار میں جا کر بیچ آیا اور اس رقم سے اپنی ضرورت پوری کر لی۔اب بیچنے والا شخص اس رقم کو اپنے ذمہ سے ہٹانا چاہتا ہے اور مالک کا معلوم نہیں لیکن انگوٹھی کی اٹھاتے وقت کی قیمت،بیچتے وقت کی قیمت اور موجودہ دور کی قیمت تینوں میں فرق ہے،سوال یہ ہے کہ
- انگوٹھی اٹھانے والا کس قیمت کا ضامن ہو گا ؟کیونکہ وہ بیچتے وقت کی قیمت بھول بهی چکا ہے ۔
- جس قیمت کا بھی ضامن ہو قیمت کا مصرف کیا ہو گا؟
تنقیح: جس وقت انگوٹھی بیچ کر پیسے استعمال کیے اس وقت اور انگوٹھی اٹھاتے وقت مذکورہ شخص مستحق زکوٰۃ نہیں تھا۔مالک کو تلاش نہیں کیا البتہ اس نیت سے انگوٹھی اٹھائی تھی کہ اگر مالک مل جائے تو اس کو واپس کردوں گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1.انگوٹھی بیچنے کے دن کی قیمت (اس انگوٹھی کی اس دن کی مارکیٹ ویلیو) کا ضامن ہوگا اور اس دن کی مارکیٹ ویلیو سنار وغیرہ سے معلوم کی جاسکتی ہے اگر مارکیٹ ویلیو معلوم نہ ہوسکتی ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کریں۔
2.اس قیمت کا مصرف مستحقِ زکوٰۃ شخص ہوگا۔
توجیہ: مذکورہ صورت لقطہ کی ہے اور لقطہ اٹھانے والے کے ہاتھ میں امانت ہوتا ہے اور امانت کا ضمان تعدی کے وقت کی قیمت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ ملتقط نے انگوٹھی کی تعریف و تشہیر نہیں کی تھی لہذا اس کے لیے انگوٹھی بیچنا جائز نہ تھا تعریف کیے بغیر جب ملتقط نے انگوٹھی بیچ دی تو بیچتے وقت تعدی پائی گئی لہذا انگوٹھی کی بیچنے کے دن کی قیمت(مارکیٹ ریٹ)معلوم کر کے صدقہ کرنا ضروری ہے ۔
الدر المختار(425/6) میں ہے:
(وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها، وفي المجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالاطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد، فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد
بدائع الصنائع(298/5) میں ہے:
ثم إذا عرفها ولم يحضر صاحبها مدة التعريف فهو بالخيار إن شاء أمسكها إلى أن يحضر صاحبها، وإن شاء تصدق بها على الفقراء ولو أراد أن ينتفع بها فإن كان غنيا لا يجوز أن ينتفع بها عندنا.
شرح المجلۃ لمحمد خالد الاتاسی(3/296) میں ہے:
الوديعة اذا لزم ضمانها فان كانت من المثليات تضمن بمثلها وان كانت من القيميات تضمن بقيمتها يوم لزوم الضمان يعني يوم وقع تعدى المودع على الوديعة،لأنه بذلك صار غاصبا،ففي المنح وغيره:المودع بالتعدى على الوديعة غاصب.
الدرالمختار(6/427) میں ہے:
(فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه)
وقال ابن عابدين:(قوله: فينتفع الرافع) أي من رفعها من الأرض: أي التقطها وأتى بالفاء، فدل على أنه إنما ينتفع بها بعد الإشهاد والتعريف إلى أن غلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها، والمراد جواز الانتفاع بها والتصدق، وله إمساكها لصاحبها. وفي الخلاصة له بيعها أيضا وإمساك ثمنها ثم إذا جاء ربها ليس له نقض البيع لو بأمر القاضي، وإلا فلو قائمة له إبطاله؛ وإن هلكت، فإن شاء ضمن البائع وعند ذلك ينفذ بيعه في ظاهر الرواية وله دفعها للقاضي فيتصدق بها أو يقرضها من مليء أو يدفعها مضاربة والظاهر أن له البيع أيضا. وفي الحاوي القدسي الدفع إلى القاضي أجود ليفعل الأصلح. وفي المجتبى: التصدق بها في زماننا أولى،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved