استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محمد بن حاتم اور عبیداللہ بن سعید نے کہا ہمیں یحیٰ بن سعید نے حجاج صواف سے حدیث سنائی انہوں نے کہا ہمیں یحیٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ اور عبداللہ بن ابی قتادہ سے حدیث سنائی انہوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انہوں نےکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے توا س وقت کھڑے نہ ہوا کرو جب تک مجھے نہ دیکھ لو اور ابن ابی حاتم نے کہا جب تک اقامت کہی جائے یا (جماعت کے لیے )پکارا جائے ۔
مفتی صاحب میرانام معاویہ ہے ۔
کیا یہ حدیث درست ہے؟اس کے باے میں رہنمائی فرمائیں ۔میراایک دوست بریلوی ہے اس نے یہ حدیث سینڈ کی ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ حدیث درست ہے ،لیکن اس حدیث سے وہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا جو بریلوی حضرات کے ہاں معمول ہے یعنی کہ امام مصلے پر آکر بیٹھ جائے اور اقامت کہنے والے کے علاوہ سب مقتدی بھی بیٹھیں رہیں اور حی علی الصلوۃکے وقت کھڑے ہوں۔کیونکہ ایک تو یہ حدیث ایک خاص پس منظر میں ہے "وہ یہ ہےکہ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے باہر تشریف لانے سے پہلے ہی اقامت شروع کردی اور حسب دستور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہوگئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کردی کہ میرے نکلنے سے پہلے کھڑے نہ ہوں "اس سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں امام کے آنے سے پہلے کھڑے ہونے سے منع فرمایا گیا ہے تاکہ نمازیوں کو بلاوجہ مشقت نہ ہو۔اور دوسرے اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب مجھے دیکھ لو تو اب کھڑے ہوسکتے ہو
فتح الباری2/332
قال القرطبی ظاهر الحديث إن الصلاة كانت تقام قبل أن يخرج النبي صلى الله عليه و سلم من بيته وهو معارض لحديث جابر بن سمرة أن بلالا كان لا يقيم حتى يخرج النبي صلى الله عليه و سلم أخرجه مسلم ويجمع بينهما بأن بلالا كان يراقب خروج النبي صلى الله عليه و سلم فأول مايراه يشرع في الإقامة قبل أن يراه غالب الناس ثم إذا رأوه قاموا فلا يقوم في مقامه حتى تعتدل صفوفهم قلت ويشهد له ما رواه عبد الرزاق عن بن جريج عن بن شهاب أن الناس كانوا ساعة يقول المؤذن الله أكبر يقومون إلى الصلاة فلا يأتي النبي صلى الله عليه و سلم مقامه حتى تعتدل الصفوف وأما حديث أبي هريرة الآتي قريبا بلفظ أقيمت الصلاة فسوى الناس صفوفهم فخرج النبي صلى الله عليه و سلم ولفظه في مستخرج أبي نعيم فصف الناس صفوفهم ثم خرج علينا ولفظه عند مسلم أقيمت الصلاة فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن يخرج إلينا النبي صلى الله عليه و سلم فأتى فقام مقامه الحديث وعنه في رواية أبي داود أن الصلاة كانت تقام لرسول الله صلى الله عليه و سلم فيأخذ الناس مقامهم قبل أن يجيء النبي صلى الله عليه و سلم فيجمع بينه وبين حديث أبي قتادة بأن ذلك ربما وقع لبيان الجواز وبأن صنيعهم في حديث أبي هريرة كأن سبب النهى عن ذلك في حديث أبي قتادة وأنهم كانوا يقومون ساعة تقام الصلاة ولو لم يخرج النبي صلى الله عليه و سلم فنهاهم عن ذلك لاحتمال أن يقع له شغل يبطىء فيه عن الخروج فيشق عليهم انتظاره
عمدۃ القاری 5/154
فإن قلت روى مسلم من حديث أبي هريرة أقيمت الصلاة فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن يخرج إلينا رسول الله وفي رواية إن الصلاة كانت تقام لرسول الله فيأخذ الناس مصافهم قبل أن يقوم النبي مقامه وفي رواية جابر بن سمرة كان بلال يؤذن إذا دحضت الشمس فلا يقيم حتى يخرج النبي فإذا خرج الإمام أقام الصلاة حين يراه وبين هذه الروايات معارضة قلت وجه الجمع بينهما أن بلالا كان يراقب خروج النبي من حيث لا يراه غيره أو إلا القليل فعند أول خروجه يقيم ولا يقوم الناس حتى يروه ثم لا يقوم مقامه حتى بعدل الصفوف وقوله في رواية أبي هريرة فيأخذ الناس مصافهم قبل خروجه لعله كان مرة أو مرتين أو نحوهما لبيان الجواز أو لعذر ولعل قوله فلا تقوموا حتى تروني كان بعد ذلك قال العلماء والنهي عن القيام قبل أن يروه لئلا يطول عليهم القيام لأنه قد يعرض له عارض فيتأخر بسببه
اعلاءالسنن4/367
قال المؤلف ويمكن حمل حديث جابر علي ما بعد النهي ايضا
جواهر الفقہ2/430
چوتھی حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ ولیہ وسلم کے گھر سے باہر تشریف لانے سے پہلے ہی اقامت شروع کردی اور حسب دستور سب صحابہ اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہوگئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ میرے نکلنے سے پہلے کھڑے نہ ہوں مقصد اس کا ظاہر ہے کہ لوگوں کو مشقت سے بچانے کے لیے فرمایا ہے اور اس حدیث کے الفاظ لاتقوموا حتي تروني یعنی اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ میں گھر سے باہر آگیا ہو اس لفظ سے بھی یہ مفہوم ہوتاہے کہ میرے باہر آجانے کے بعد کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved