• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرابحہ مؤجلہ کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

ایک شخص نے دوسرے شخص سے یہ کہا  کہ آپ پانچ لاکھ کا مال  خرید کر اپنی ملکیت میں لے کر مجھے ساڑھے چھ لاکھ روپے میں بیچ دیں  اوروہ ساڑھےچھ لاکھ میں آپ کو ہر ماہ قسطوں میں ادا کروں گا (بیس ہزار ماہانہ) معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا  یہ معاملہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ کوئی اور تجویز ہو  تو شریعت کی رُو سے تحریر فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملہ جائز ہے البتہ پہلے شخص کا دوسرے کو یہ کہنا کہ ’’تم مال خرید لو پھر میں  تم سے خرید لوں گا‘‘ اس کی حیثیت صرف وعدہ کی ہوگی لہٰذا دوسرے شخص کے مال خرید نے کے بعد نہ تو پہلا شخص   اسے پابند کرسکتا ہے کہ یہ مال مجھے ہی  بیچو،  نہ دوسرا شخص پہلے کو خریدنے پر مجبور کرسکتا ہے البتہ باہمی رضامندی سے بعد میں آپس میں معاملہ طے کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں،نیز اگر بعد والا معاملہ  قسطوں کی صورت میں ہو تو کل قیمت طے کرنے کے ساتھ ساتھ  یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ قسطوں کی کل مدت اور فی   قسط کی مقدار بھی کتنی ہوگی   جس میں کسی قسط  کے لیٹ کرنے کی بنیاد پر جرمانہ کہ شرط لگانا بھی جائز نہیں۔

الدرمختار مع ردالمحتار(7/139)میں ہے:

وصح بثمن حال وهو الاصل ومؤجل الي معلوم لئلا يفضى الي النزاع

قوله (لئلا يفضى الي النزاع) تعليل لاشتراط كون الاجل معلوما لان علمه لا يفضى الى النزاع واما مفهوم الشرط المذكور وهو انه لايصح اذا كان الأجل مجهولا فعلته كونه يفضى الى النزاع فافهم

فقہ البیوع (1/545)میں ہے:

وان زيادة الثمن من اجل الاجل وان كان جائزا عند بداية العقد ولكن لاتجوز الزيادة عند التخلف في الاداء فانه ربا في معني”اتقضي ام تربي” وذلك لان الاجل وان كان منظورا عند تعيين الثمن في بداية العقد ولكن لما تعين الثمن فان كله مقابل للمبيع وليس مقابلا للاجل  ولذلك لايجوز "ضع وتعجل” كما سيأتي تفصيله ان شاء الله تعالي اما اذا زيد في الثمن عند التخلف في الاداء فهو مقابل للاجل مباشرة لاغير وهو الربا

امدادالفتاوی(3/39) میں ہے:

الجواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں، ایک یہ کہ زید وعمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں، اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کردے تو زید کو مجبور کرنیکا  کوئی حق نہیں، پس اگر عرف وعادت میں عمرو کو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے ورنہ حلال۔

امدادالفتاوی (3/41) میں ہے:

الجواب: یہاں دو بیعیں علی سبیل التعاقب ہیں، ایک وہ کہ زید نے عمرو سے مال خریدا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر زید عمرو کو بیع وشراء پر بنا وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved