• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

حرمت مصاہرت کے بعد اولاد کے باہم نکاح کا حکم

استفتاء

ایک آدمی کے چار بیٹے ہیں، ان میں  سے دو بیٹوں کی بیویوں(یعنی اپنی بہوؤں) کے ساتھ تقریباً چار سال قبل سسر نے غلط ارادے سے  چھیڑ چھاڑ کی۔ جس کی تفصیل  یہ ہے:

ایک بہو کے کمرے میں چلا گیا اور اسے پکڑا  چارپائی پر لٹا لیا اور صحبت کرنا چاہی مگر وہ بڑی مشکل سے جان چھڑا کر بھاگی۔ دوسری بہو  ایک دفعہ اسے کمرے میں کھانا دینے گئی، تو سسر نے ہاتھ سے پکڑا اور کہا: سوہنیو! منہ تے چما دیا کرو(یعنی منہ کا بوسہ بھی دیا کرو۔) وہ بھی ہاتھ چھڑا کر بھاگ گئی اور اپنے خاوند کو بتایا۔

ان دونوں معاملات میں مقامی علماء سے فتویٰ لیا گیاتو انہوں نے کہا کہ حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی ہے اور بیٹوں کا اپنی بیویوں سے نکاح ختم ہوچکا ہے۔

  1. اب یہ چاروں بھائی اپنی اولادوں کا باہم  نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ان  کی اولادوں کا  باہم نکاح ہو سکتا ہے؟
  2. شبہ یہ ہے کہ جب وہ دونوں بہوؤیں سسر کے لیے بمنزلہ بیوی کے ہوگئیں  تو اپنے خاوندوں کے لیے بمنزلہ ماؤں کے ہوگئیں  تو ان کی اولاد دیگر بھائیوں کی اولاد کے لیے بمنزلہ چچا پھوپھی کے ہوگئی۔  آیا یہ شبہ درست  ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2. مذکورہ صورت میں چاروں بھائیوں کی اولادوں کاباہم نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ حرمتِ مصاہرت ثابت  ہونے  سے مرد کے اصول و فروع (یعنی باپ دادا یا بیٹا پوتا وغیرہ) اس عورت پر حرام ہوجاتے ہیں اور عورت کے اصول و فروع (یعنی ماں، نانی یا بیٹی ، پوتی وغیرہ)  اس مرد  پر حرام ہوجاتے ہیں جبکہ یہ حرمت  اصول و فروع کے علاوہ  دوسروں کی طرف متعدی نہیں ہوتی یعنی ان کی اولادوں کی طرف وہ حرمت سرایت نہیں کرتی لہٰذا یہ شبہ درست نہیں۔

فتاوی شامی(4/113) میں ہے:قوله: (وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ

ہندیہ (277/1) میں ہے:لا بأس بأن يتزوج الرجل امرأة ويتزوج ابنه ابنتها أو أمها، كذا في محيط السرخسي.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved