- فتوی نمبر: 23-155
- تاریخ: 23 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہو اور مقتدی التحیات یعنی آخر میں شامل ہو تو مقتدی باقی نماز کس طرح ادا کرے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مقتدی کھڑا ہونے کے بعد پہلی دو رکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھے گا اور آخری دو رکعتوں میں الفاتحہ اور سورۃ پڑھے گا۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں مقیم مقتدی اپنی پہلی دو رکعات میں لاحق ہے اور آخری دو رکعات میں مسبوق ہے چنانچہ کھڑا ہونے کے بعد پہلی دو رکعتوں میں لاحق والے حکم پر عمل کرے گا اور لاحق گویا کہ حکماً امام کی اقتداء میں ہی ہوتا ہےلہذا فاتحہ اور سورۃ بھی نہ پڑھے گا اور آخری دو رکعات میں مسبوق کے حکم پر عمل کرے گا اور سورۃالفاتحہ اور سورۃ پڑھے گا۔
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب الامامۃ(طبع: دارالکتب العلمیہ،جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 292)میں ہے
"اقتدى مقيم بمسافر "صح” الاقتداء "فيهما” أي في الوقت وفيما بعد خروجه لأنه صلى الله عليه وسلم صلى بأهل مكة وهو مسافر وقال: "أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر” وقعوده فرض أقوى من الأول في حق المقيم ويتم المقيمون منفردين بلا قراءة”
ردالمحتار علی الدرالمختار، كتاب الصلاة ، باب الامامۃ (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر2 صفحہ نمبر 414)میں ہے
” ( و ) اعلم أن ( المدرك من صلاها كاملة مع الإمام ، واللاحق من فاتته ) الركعات ( كلها أو بعضها ) لكن ( بعد اقتدائه ) بعذر كغفلة وزحمة وسبق حدث وصلاة خوف ومقيم ائتم بمسافر، وكذا بلا عذر ؛ بأن سبق إمامه في ركوع وسجود فإنه يقضي ركعة ، وحكمه كمؤتم فلا يأتي بقراءة ولا سهو ولا يتغير فرضه بنية إقامة ، ويبدأ بقضاء ما فاته عكس المسبوق ثم يتابع إمامه إن أمكنه إدراكه وإلا تابعه ، ثم صلى ما نام فيه بلا قراءة ، ثم ما سبق به بها إن كان مسبوقا أيضا ، ولو عكس صح وأثم لترك الترتيب
قال ابن عابدين : قوله (ومقيم إلخ ) أي فهو لاحق بالنظر للأخيرتين ، وقد يكون مسبوقا أيضا كما إذا فاته أول صلاة إمامه المسافر "
فتاوی محمودیہ،كتاب الصلوة، باب صلوة المسافر(طبع: جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر7 صفحہ نمبر 525)میں ہے
۲۔۔۔ اگر مقیم مقتدی مسافر امام کے پیچھے دوسری رکعت میں آ کر شریک ہوا تو بقیہ نماز کس طرح پوری کرے؟ اور اگر اقتداء قعدہ میں کرے تو چاروں رکعتیں کس طرح ادا کرے؟
الجواب حامدا و مصلیا
۲۔۔۔ہر دو صورت میں یہ شخص مسبوق لاحق ہے، اول صورت میں اس کو چاہیے کہ سلام امام کے بعد پہلے دو رکعت بلا قراءت لاحق کی طرح پڑھے پھر ایک رکعت قراءت کے ساتھ پڑھے، ثانی صورت میں چاہیے کہ پہلے دو رکعت بلا قراءت پڑھے پھر دو رکعت قراءت کے ساتھ پڑھے”
کفایت المفتی، کتاب الصلوۃ،انیسواں باب :مدرک مسبوق لاحق(طبع:دار الاشاعت کراچی، جلد نمبر 3صفحہ نمبر432 ) میں ہے
"(سوال ) زید مسافر ہے عصر کی نماز دو رکعتیں پڑھ کر قعدہ پر بیٹھا ہوا تھا ایک شخص مقیم تشہد میں شریک ہوگیا اب یہ شخص کون سی رکعتیں پہلے پڑھے گا؟ فاتحہ والی یا فاتحہ سورت دونوں ؟
(جواب ۶۷۳) جب کہ کوئی مقیم شخص چار رکعت والی نماز میں امام مسافر کے پیچھے قعدہ میں شریک ہو تو وہ مسبوق بھی ہے اور لاحق بھی اور اس کو چار رکعتیں پڑھنی ہیں پہلے وہ دو رکعتیں پڑھے جن میں لاحق ہے یعنی آخر والی ان میں نہ فاتحہ پڑھے نہ سورت کیونکہ ان رکعتوں میں وہ حکماً امام کے پیچھے ہے پھر وہ رکعتیں پڑھے جن میں مسبوق ہے یعنی پہلی دو رکعتیں ان میں فاتحہ اور سورت دونوں پڑھے ۔ واللہ اعلم ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved