• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسلمان کے اسلام پر صحیح عمل کرنے کو کافر کے اسلام لانے سے بہتر کہنے کا حکم

استفتاء

مندرجہ ذیل مسئلہ میں رہنمائی درکار ہے۔ برائے مہربانی مہر کے ساتھ جواب دیں۔

اگر کوئی شخص مندرجہ ذیل الفاظ کہہ دے تو کیا یہ کفر شمار ہو گا؟  الفاظ یہ ہیں:

’’اگر ایک مسلمان صحیح طریقے سے واپس اسلام پر عمل کرنے پر آجائے تو یہ ایک کافر کے اسلام لانے سے بہتر ہے‘‘

اس کی مراد ان الفاظ سے یہ تھی کہ اگر ایک مسلمان اسلام پر صحیح طریقے سے عمل کرے تو یہ کافروں کے لیے بہتر مثال بنے گا، اور یہ ان کے اسلام میں داخلے میں اور اسلام پر مطمئن ہونے میں معین ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ ایک چھوٹے گناہ سے توبہ کرنا بڑے گناہ سے توبہ کرنے سے بہتر ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سائل کا یہ جملہ  کہ  ’’اگر ایک مسلمان صحیح طریقے سے واپس اسلام پر عمل کرنے پر آجائے تو یہ ایک کافر کے اسلام لانے سے بہتر ہے‘‘ کفر شمار نہ ہو گا۔ تاہم سائل کو ایسا جملہ نہ کہنا چاہیے  جو دوسروں کے لیے شکوک وشبہات کا ذریعہ بنے۔

اس جملے کے کفر شمار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سائل کی ذکر کردہ عبارت کا مطلب یہ بنتا ہے کہ مسلمان کا اپنے اسلام پر عمل کرنا بھی بہتر ہے اور کافر کا اسلام لانا بھی بہتر ہے۔ کیونکہ  ’’بہتر‘‘ کا لفظ اسم تفضیل ہے ، جو مفضل علیہ (جس پر کسی دوسرے کو فضیلت دی گئی ہو) سے بہتر ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ لہذا سائل کی عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ کافر کے اسلام لانے میں سرے سے کوئی خیر ہی نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں  خیر کے کام ہیں، البتہ مسلمان کا دین پر صحیح  طرح سے عمل پیرا ہونا زیادہ خیر کا باعث ہے۔

اور یہ بات بعض پہلووں سے درست بھی ہے۔ مثلاً ایک پہلو تو وہی ہے جسے خود سائل نے ذکر کیا ہے کہ مسلمان کے اسلام پر صحیح عمل کرنے سے کافروں کے لیے اسلام میں داخل ہونے اور اسلام پر مطمئن ہونے میں معین ہو گا۔ اور ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مسلمان اپنے اسلام پر صحیح عمل نہ کریں تو بعض اوقات مسلمانوں کی  بے عملی مسلمان ہونے والے کافر کے مرتد ہونے کا سبب اور ذریعہ بن جاتی ہے۔

اور حضرات فقہائے کرام نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانوے پہلو کفر کے نکلتے ہوں اور ایک پہلو اسلام کا نکلتا ہو تو ان ننانوے کفریہ پہلوؤں کی بنا پر اسے کافر نہ کہیں گے بلکہ ایک اسلام والے پہلو کی بنا پر اسے مسلمان ہی کہیں گے۔ ہاں البتہ اگر کہنے والا خود ہی اسلام والے پہلوؤں کی نفی کر دے تو علیحدہ بات ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

وفي الفتاوٰى الصغرى: الكفر شيء عظيم، فلا  أجعل المؤمن كافراً متى وجدت رواية أنه لا يكفر، اھ. وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير، ووجه واحد يمنعه، فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير، للظن بالمسلم، زاد في البزازية: إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر، فلا يمنعه التأويل ح، وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة، فيستدعي نهاية في الجناية، ومع الاحتمال لا نهاية. (9/ 345).

وفي مرقاة المفاتيح:

وهذه نزعة جسيمة وجرأة عظيمة، فإن عبارة آحاد الناس إذا احتملت تسعة وتسعين وجهاً من الحمل على الكفر، ووجهاً واحداً على خلافه، لا يحل أن يحكم بارتداده. (4/714).

جواہر الفقہ میں ہے:

’’امر اول (یعنی مسلمان کو کافر قرار دینے) کے متعلق تو یہاں تک تصریحات ہیں کہ اگر کسی شخص سے کوئی کلام خلاف شرعی صادر ہو جائے، اور اس کلام کی مراد میں محاورات کے اعتبار سے چند احتمال ہوں اور سب احتمالات میں یہ کلام ایک کلمہ کفر بنتا ہو، لیکن صرف ایک احتمال ضعیف ایسا بھی ہو کہ اگر اس کلام کو اس پر حمل کیا جائے تو معنیٰ کفر نہیں رہتے، بلکہ عقائد حقہ کے مطابق ہو جاتے ہیں تو مفتی پر واجب ہے کہ اس احتمال ضعیف کو اختیار کر کے اس کے مسلمان ہونے کا فتویٰ دے، جب تک کہ خود وہ متکلم اس کی تصریح نہ کرے کہ میری مراد یہ معنی نہیں۔ (وصول الافکار الیٰ اصول الافکار: 22)‘‘ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved