• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسلسل سفر میں رہنے والوں کے لیے روزے کی رخصت و قضا کا حکم

استفتاء

ایک ڈرائیور نے مجھے کہا کہ میں 10،15 سال سے کراچی تا پشاور گاڑی چلا رہا ہوں، سفر میں روزہ چھوڑنے کی گنجائش ہے لیکن ہم تو پورا سال ہی سفر میں ہوتے ہیں اب اگر رمضان آ جائے تو ہمارے لیے رمضان میں  روزہ کا کیا حکم ہوگا ؟

اگر ہم روزہ نہ رکھیں تو چونکہ غیر رمضان میں بھی ہم سفر میں ہوتے ہیں، کوئی ایسا دن نہیں ملتا جس میں ہم روزہ رکھ لیں سوائے سال بھر میں دو تین دن کے ،تو اب سفر میں روزہ کی رخصت بھی ہے تو ہمارے لیے کیا حکم ہوگا ؟

کیونکہ ایک سال کے روزے کئی سال تک رہ جاتے ہیں تب تک دوسرا رمضان آ جاتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ شخص  رمضان المبارک میں اگر سحری کے وقت مسافر نہ ہو بلکہ مقیم ہو تو  اس کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے اور اگر سحری کے وقت بھی مسافر ہو تو اس  صورت میں اگرچہ  روزہ رکھنا ضروری نہیں  تاہم اگر سفر میں خاص مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا مستحب ہے تاہم  اس صورت میں اگر اس نے روزہ نہ رکھا تو بعد میں اس کی قضا  کرنا لازم ہے اور قضا سفر میں بھی ہو سکتی ہے ،لیکن  اگر یہ سفر میں قضا نہیں کرنا چاہتا  تو اقامت  کے جتنے دن اسے میسر ہوں اتنے دن کی قضا کرے  اور باقی دنوں کے فدیہ کی وصیت کردے۔

فتاوی عالمگیری(1/206) میں ہے:

فلو سافر نهارا لا يباح له الفطر في ذلك اليوم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (2/ 431)میں ہے:

’’(ولو نوى مسافر الفطر) أو لم ينو (فأقام ونوى الصوم في وقتها) قبل الزوال (صح) مطلقاً، (ويجب عليه) الصوم (لو) كان (في رمضان)؛ لزوال المرخص (كما يجب على مقيم إتمام) صوم (يوم منه) أي رمضان (سافر فيه) أي في ذلك اليوم

(قوله: ويجب عليه الصوم) أي إنشاؤه حيث صح منه بأن كان في وقت النية ولم يوجد ما ينافيه، وإلا وجب عليه الإمساك كحائض طهرت ومجنون أفاق كما مر، (قوله: كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لايحل الفطر‘‘

الجوہرۃ النیرہ(1/142) میں ہے:

(قوله ‌وإن ‌كان ‌مسافرا ‌لا ‌يستضر ‌بالصوم ‌فصومه ‌أفضل)…………….. (قوله فإن أفطر وقضى جاز) لأن السفر لا يعرى عن المشقة فجعل نفسه عذرا بخلاف المرض فإنه قد يخف بالصوم فشرط كونه مفضيا إلى المشقة ثم السفر ‌ليس ‌بعذر ‌في ‌اليوم الذي أنشأ السفر فيه حتى إذا أنشأ السفر بعدما أصبح صائما لا يحل له الإفطار بخلاف ما إذا مرض بعد ما أصبح صائما لأن السفر حصل باختياره والمرض عذر من قبل من له الحق

الدر المختار (2/423) میں ہے:

”(ويندب لمسافر الصوم) لآية ﴿ وَأَنْ تَصُوْمُوْا ﴾ [البقرة: 184] والخير بمعنى البر لا أفعل تفضيل (إن لم يضره) فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة”.

بحرالرائق(2/303) میں ہے:

بخلاف السفر فإنه ليس بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه ولا يحل له الإفطار وهو عذر في سائر الأيام كذا في الظهيرية وأشار باللام إلى أنه مخير بين الصوم والفطر لكن الفطر رخصة والصوم عزيمة فكان أفضل إلا إذا خاف الهلاك فالإفطار واجب، كذا في البدائع

ہندیہ (1/207) میں ہے:

ولو ‌فات ‌صوم ‌رمضان بعذر المرض أو السفر واستدام المرض والسفر حتى مات لا قضاء عليه لكنه إن أوصى بأن يطعم عنه صحت وصيته، وإن لم تجب عليهط

امداد الفتاوی(4/278) میں ہے:

سوال (۹۷۶) قدیم ۱۴۴/۲- ایک شخص اکثر سفر میں رہتا ہے اور رمضان بھی سفر میں گزرتا ہے رمضان کے بعد اس کو اقامت کا موقع نہیں ملتا ہے، اگر ساری عمر اس کو اقامت کا موقع نہ ملے تو قضاء رمضان اس پر لازم ہوگی یا نہیں اور وصیت فدیہ بھی اس پر لازم ہے یا نہیں؟ بينوا ولكم عند الله الأجر الجزيل.

الجواب : نص قرآنی میں قضائے مسافر و مریض کا سبب وجوب صيام عدة من ايام أخر كا اور اک بتلایا ہے ، سو اگر ادراک ایام ہوا تو قضائے صوم بقد را دراک واجب ہے ، ورنہ وجوب نہیں ہوتا خواہ مرض و سفر تمام عمر رہے۔ فلا تجب عليهم الوصية بالفدية لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام اخر كذا في الدر المختار

ولو فات صوم رمضان بعذر المرض أو السفر واستدام المرض والسفر حتى مات لا قضاء عليه ….. فإن برى المريض أو قدم المسافر وأدرك من الوقت بقدر ما فاته فيلزمه قضاء جميع ما أدرك، فإن لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصى بالفدية هندية، كتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التى تبيح الافطار

خیر الفتاوی(4/47) میں ہے:

سوال:زید رمضان کے مہینہ میں سفر کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ اور بوجہ درازی  سفر و تکالیف روزہ نہیں رکھ سکتا۔ مگر دن کے دس بجے تک گھر سے نہیں نکل سکتا ۔ موٹر گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ۔ اب اشکال یہ ہے کہ اگر روزہ رکھ کر روانگی کے وقت توڑے تو ابطال عمل لازم آتا ہے ۔ اگر روزہ نہیں رکھتا تو روانگی تک اقامت ہے اور احکام سفر اس پر عائد نہیں ہوتے۔ اب اگر زید صبح سے روزہ کی نیت  نہ کرے اور جب تک گھر میں رہے امساک کرلے تو گنہگار تو نہیں ہو گا ؟

جواب:  ایسے شخص کو روزہ رکھنا واجب ہے اور اس روزہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ لیکن اگر اس شخص نے روزہ رکھا اور مسافر ہونے کے بعد توڑ دیا ۔ تو اس پر کفارہ نہیں آئے گا۔ صرف ایک روزہ قضا کا لازم آئے گا اور رات سے نیت نہ کرنے سے گناہ گار ہوگا۔

لماني الدر على الشامية كما يجب على مقيم اتمام . صوم يوم منه الى رمضان سافر فيه اي  في ذالك اليوم ولكن لا كفارة عليه لو افطر فيهما

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved