- فتوی نمبر: 6-327
- تاریخ: 13 مارچ 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
عرض ہے میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں، میری شادی میرے شوہر سے پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ہوئی، اب میرے شوہر کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ میرے شوہر کی پہلی بیوی کا جب انتقال ہوا تو ان پر ساڑھے چار لاکھ کا قرضہ تھا جو کہ ان کی بیوی کے ذمے تھا پہلی بیوی سے پانچ بچے ہیں تین بیٹے دو بیٹیاں، جن میں سے ایک بیٹے کا انتقال میرے شوہر کے فوت ہونے کے بعد ہوا، میرے شوہر نے پہلی بیوی کے نام ایک گھر بھی لے کر دیا تھا بیوی کے انتقال کے بعد میرے شوہر نے وہ گھر بیچ کر پہلے ان کا قرضہ اتر
باقی رقم ان کے بچوں میں تقسیم کر دی۔
جس کمپنی میں میرے شوہر کام کرتے تھے وہاں سے انہیں گولڈن شک ہیڈ ملا تقریباً آٹھ لاکھ میں سے کچھ رقم سے کاروبار کیا اور باقی رقم سے میرے لیے ایک گھر خریدا جس میں میری طرف سے بھی کچھ رقم لگی جو کہ مجھے میرے والد سے ملی اور کچھ میں نے اپنا زیور بیچ کر پوری کی۔ وہ گھر آٹھ لاکھ اٹھائیس ہزار کا تھا اور میری کل رقم ایک لاکھ اناسی ہزار تھی، کچھ عرصہ بعد میرے شوہر کا انتقال ہو گیا، میرے شوہر سے میری ایک بیٹی بھی ہے، شوہر کے انتقال کے بعد میں نے وہ گھر بیچ دیا۔ جب میرے شوہر میرے نام گھر خرید رہے تھے تو میں نے اپنے شوہر سے کہا: دیکھ لے آپ غلط تو نہیں کر رہے، میرے شوہر نے کہا میں نے پہلی بیوی کو بھی گھر خرید کر دیا تھا اور بچوں کا بھی میں حق ادا کر چکا ہوں۔ یہ گھر تمہارا اور تمہاری بیٹی کا ہے۔
کیا میرے شوہر نے غلط کیا ہے؟ کیا اس رقم پر ان بچوں کا بھی حق تھا ؟ کیا میرے شوہر نے اپنی مرضی سے اپنی زندگی جو گھر
میرے نام سے خریدا اس گھر پر ان بچوں کا بھی حق تھا؟ چونکہ وہ گھر میں نے بیچ دیا اب اس کی رقم میرے پاس ہے کیا مجھے اس رقم
سے ان بچوں کو حصہ دینا چاہیے۔
جب میں نے وہ گھر بیچا وہ دس لاکھ کا بکا، میں بہت پریشان ہوں، میں نہیں چاہتی میرے شوہر پر یا مجھ پر کوئی بوجھ ہو۔ مہربانی کر کے میری اصلاح فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
شوہر کی جانب سے ہبہ کی مذکورہ صورت درست ہے اور مکان میں دوسری بیوی اور اس کی بیٹی کی ملکیت ثابت ہو گی۔ لہذا اس مکان میں دوسروں کا کوئی حق نہیں بنتا۔
لو وهب واحد دارا من اثنين لم يصح عند أبي حنيفة رحمه الله و قالا يصح. (رد المحتار: 12/ 559)
مدار الخلاف بينهم علی حرف و هو أن هبة الدار من رجلين تمليك كل الدار جملة أو تمليك من أحدهما و النصف من الآخر فعند أبي حنيفة رحمه الله تمليك النصف من أحدهما و النصف من الآخر فيكون هبة المشاع فيما ينقسم و عندهما هي تمليك الكل منهما فلا يكون تمليك الشائع. (بدائع الصنائع: 5/ 173)
مشاع یعنی آدھی یا تہائی کے ہبہ کی باقی جتنی صورتیں ہیں وہ امام محمد رحمہ اللہ اور باقی تین ائمہ کے نزدیک جائز ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں۔ ابتلائے عام کی وجہ سے ، امام محمد رحمہ اللہ کے قول کو لینا مناسب ہے۔ (مسائل بہشتی زیور: 2/ 334)
أما حكم الهبة: فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض. (بدائع الصنائع: 5/ 182)
© Copyright 2024, All Rights Reserved