- فتوی نمبر: 13-65
- تاریخ: 15 اپریل 2019
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
۱۔ جناب محترم عرض ہے کہ میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے ہم پانچ بہن بھائی ہیں (ایک بہن اور چار بھائی )ہم سب لوگ قطر میں ہوتے تھے کیونکہ والد صاحب وہاں نوکری کرتے تھے میرے دو بڑے بھائیوں نے بھی اپنی تعلیم مکمل کرکے وہیں پر نوکری شروع کردی اور والد صاحب کا بازو بن گئے گھر کے حالات اچھے ہونے شروع ہوگئے ۔میں اور میرا ایک اور بھائی اور بہن چھوٹے تھے اور پڑھتے تھے دونوں بڑے بھائی جو بھی کماکے لاتے وہ ساری اپنی تنخواہ والدین کی ملکیت میں دے دیتے اور باقی خود رکھ لیتے ۔اس پیسے سے پاکستان میں جائیداد یں خریدی گئیں ۔جس میں مختلف پلاٹس اور ایک عدد دکان تھی ۔میں میرے ایک بھائی اور بہن والد صاحب کا ہاتھ نہیں بٹا سکے اب ہمارے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں اور جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔
آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا ساری جائیداد کی تقسیم شریعت نے جیسے بتایا ہے ویسے ہو گی یا ساری جائیداد ان دو بھائیوں میں برابر تقسیم ہو گی ؟جنہوں نے والد صاحب کے ساتھ مل کر کمایا تھا اور باقی بہن بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو گا ۔برائے مہربانی آپ سے اس مسئلے کا تفصیل سے جواب طلب کی درخواست ہے ۔شریعت کا اس سلسلے میں کیا حکم ہے ۔شریعت میں حق تلفی کی جزا اور سزا کیا ہے ؟
مزید یہ کہ والدین کی زندگی میں بچے جو کچھ کماکے لاتے ہیں وہ والدین کو یہ کہہ کر نہیں دے سکتے کہ یہ میرے پیسے آپ کے پاس امانت ہیں وہ بس پیسے والدین کو دے دیتے ہیں اور والدین اس کو استعمال کرتے ہیں کس طرح اس بات کا پتہ چلے گا کہ انہوں نے پیسے امانت کے طور پر دیئے ہیں یا ان کی ملکیت میں دیئے ہیں ؟
۲۔ پہلے سوال کے ساتھ ایک اور سوال کی درخواست ہے ہم سب بہن بھائیوں نے باہمی رضامندی سے تقریبا ساری جائیداد بیچ کر اس کو شریعت کے مطابق آپس میں بانٹ لیا ہے والد صاحب کے فوت ہونے کے بعد ۔صرف اور صرف ایک دکان جس پر سب سے بڑے بھائی کاروبار کررہے ہیں جب والد صاحب زندہ تھے تب سے لے کرآج دن تک(میری والدہ کا انتقال 1987میں اور والد صاحب کا انتقال 1999میں ہوا تھا )وہ اب اس دکان کو وراثت میں دینے سے انکار کررہے ہیں کہ اور کہتے ہیں کہ پہلے بھی ساری جائیداد میں نے دی ہے کیونکہ میں نے والد صاحب کے ساتھ مل کرکمایا تھا اس لیے ان سب چیزوں پر میرا حق تھا باقی سب چیزیں میں نے خاموشی سے دے دی مگر اب یہ دکان میں نہیں دونگا (حالانکہ اس دکان کی رجسٹری آج بھی والد صاحب کے نام ہے)اس سلسلے میں جواب کی درخواست ہے کہ شریعت روشنی میں ہماری رہنمائی کریں تاکہ ہم سب بہن بھائی شریعت کے مطابق اس مسئلے کا حل تلاش کرسکیں ۔
مزید وضاحت :
یہ ہے کہ ساری جائیدادیں والد صاحب نے خریدی تھیں جس میں دکان بھی شامل ہے مگر اس دکان کا سامان بڑے بھائی نے ڈالا تھا ساری کی ساری جائیدادیں والد اور والدہ کے نام پر رجسٹرڈ تھیں اور ان کی وفات کے بعد لواحقین کے نام ہوئیں ان سب جائیدادوں کی ملکیت والد صاحب جب تک زندہ رہے ان کے نام تھیں مگر جس پیسے سے یہ جائیدادیں خریدیں گئیں اس میں تین بندوں کی کمائی شامل تھی (والد صاحب اور دو بھائی )مجھے کسی نے بتایا تھا کہ چونکہ دوبھائیوں کی کمائیاں اس میں شامل ہیں اس وجہ سے وراثت کا حصہ صرف ان دو بھائیوں کا ہے جبکہ باقی کے دو بھائی اور ایک بہن کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔وضاحت کریں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اولاد جب تک والدین کے ساتھ مشترکہ کھاتے (joint family system)میں رہتی ہے اور اپنی کمائی لاکر والدین کو دیتی رہتی ہے تب تک مجموعی اثاثے کے مالک والدین ہوتے ہیں اوراس کمائی سے جو چیزیں خریدی جائیں وہ بھی والدین کی ملکیت ہوتی ہیں ۔سوال میں ذکرکردہ صورت ایسی ہی ہے اس لیے ان جائیدادوں کے مالک والد تھے چنانچہ ان چیزوں کو وراثت کے طور پر تقسیم کرنا درست ہے۔ تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ جن بھائیوں نے والد کے ساتھ ہاتھ بٹایا ہے ان کی محنت اور قربانی کو نظر انداز کرنا بھی نہ چاہیے ۔ دوکان کے بارے میں اگربڑے بھائی اس بنیاد پر مطالبہ کررہے ہیں تو دیگر ورثاء کو ان کی رعایت کرنی چاہیے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved