• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ خاندان میں چند بھائیوں کا اضافی حصے کا دعوٰی کرنا

استفتاء

میں *** تقریباً 15 سال سے اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کی مشترکہ سٹیل مل سلطان فونڈری میں کام کرتا تھا اور پھر جب میرے بھائی *** بھی کام میں شامل ہوئے تو جون 1976 ميں والد صاحب (حافظ ***صاحب) نے ہم دونوں بھائیوں (*** اور  ***) کو ایک سٹیل مل ٹھیکہ (کرایہ) پر لے  کردی جو جنرل سٹیل  مل کے نام سے تھی، یہ کرایہ کی مل تھی جس میں مشینری بھی لگی ہوئی تھی  جس میں ہم نے اپنے مطابق تبدیلیاں کیں اور کام چلانا شروع کردیا، والد صاحب نے ہمیں کام شروع کرنے کے لیے ایک مرتبہ رقم دی اور اس کے بعد اس مل کی مینٹینس (ديکھ بھال )کے خرچےاور کرایہ وغیرہ ہم ہی ادا کرتے تھے ،درمیان میں ہم انہی پیسوں کا کاروبار کرتے رہے البتہ دو ،تین مرتبہ جب ہمیں رقم کی ضرورت ہوئی تو والد صاحب نے ہمیں رقم فراہم کی ،اس کے علاوہ والد صاحب نے ہمیں کوئی رقم نہیں دی۔والد صاحب نے اس کے بعد بھائی *** کلیم کو ہمارے  ساتھ شامل کردیا جس کی ہمیں ضرورت بھی تھی اس لیے اگرچہ یہ والد صاحب کی مرضی سے شامل ہوئے تھے لیکن ہمیں  بھی اس پر کوئی اعتراض نہ تھا،اس مل میں ان کی وہی حیثیت تھی جو ہم دونوں کی تھی یعنی بطورمالک شریک تھے ۔ ہمارے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ والد صاحب نے ہمیں مل لگا کر دی ہے تو تیسرابھائی کیوں شریک ہورہا ہے ۔ والد صاحب کے کہنے پر وکیل نے کمپنی بنائی جس میں تینوں بھائی ***، *** اور *** پارٹنر تھے۔ ہم تینوں بھائیوں نے  یہ مِل تقریباً 10 سال کے عرصہ تک چلائی۔اس کے بعد ہم نے والد صاحب کو کہا کہ ہمیں کہیں اور دوسری مل  لے کر دیں چنانچہ والد صاحب نے ایک مل ہمیں دی جو کہ ان کے  اور ان کے بھائی (ہمارے چچا) کے درمیان مشترک تھی ،چچا کے حصے کی رقم ہم نے ادا کردی اور والد صاحب کے حصے کی رقم ہم نے ان کو ادا نہیں کی ،ہم نے اس نئی مل کا نام جنرل سٹیل مل ہی رکھا یعنی نام وہی رہا اور جگہ تبدیل کردی ۔

پندرہ سال بعد 1990 میں ہم نے پرانی کمپنی جنرل سٹیل مل کو ختم کردی اور صوفی سٹیل کے نام سے نئی فرم بنائی، جس میں تین چھوٹے بھائیوں حافظ ***، *** اور*** کو کاغذی طور پر کمپنی میں ڈائریکٹرز  کے طور پر شریک کرلیا  یہ بھی ہم نے والد صاحب کے کہنے پر کیا تھا  اور ہم نے اعتراض اس لیے نہیں کیا کہ اس وقت بھی ہم یہی سمجھتے تھے کہ ہم سب ایک ہی ہیں ، اس کے علاوہ والد صاحب  اور چچا صاحب سٹی سٹیل کے نام سے اپنا علیحدہ کام کررہے تھے اور یہ دونوں بھائی (حافظ *** اور ***) سٹی سٹیل میں کام کرتے تھے اور وہاں سے تنخواہ بھی وصول کررہے تھے اور صوفی سٹیل میں ان کا  کوئی عمل دخل نہیں تھا صرف نام کے ڈائریکٹرز تھے اور تیسرے بھائی عامر محمود *** 1995-1990 کے دورانیہ میں پہلے سے ہمارے پاس (صوفی سٹیل) میں آچکے تھے اور کام کررہے تھے ۔

1995 جنوری میں والد صاحب چچا سے علیحدہ ہوکر اپنا سرمایہ لیکر ہمارے ساتھ آگئے اور بھائی *** اور بھائی *** بھی ہمارے پاس آگئے ۔

جس وقت والد صاحب زندہ تھے اور ہم سب بھائی صوفی سٹیل مل میں کام کرتے تھے تو سب کو تنخواہ والد صاحب کی مرضی سے ملتی تھی جو کہ  کسی بھائی کو کم اور کسی کو زیادہ  ملتی تھی فریق اول (تین بھائیوں )کو اپنے حصے کا نفع الگ سے نہیں ملتا تھا۔

2013 مارچ میں والد صاحب حافظ *** کا انتقال ہوگیا۔ ہم بھائیوں نے مفتی *** صاحب (جامعہ ***یہ) کو گھر بلایا تاکہ وراثت تقسیم کی جائے۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ جو رقم والد صاحب نے آپ کو جنرل سٹیل میں دی وہ ہبہ ہے اور آپ تینوں کا حصہ ہے  جو سرمایہ والد صاحب چچا سے علیحدہ ہو کر لائے تھے وہ تمام ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا،جب مفتی صاحب نے ہمیں یہ بات بتائی تو ہمیں پتہ چلا کہ جنرل سٹیل مل اور اس سے ملنے والا نفع ہمارا (تین بھائیوں کا) ہے اس سے پہلے ہمارے خیال میں سارا کاروبار اور منافع سب بھائیوں میں مشترک تھا، مزید کچھ عرصہ بعد جامعہ ***یہ سے بھی فتویٰ لیا گیا جس کی کاپی ساتھ لف ہے۔

سارے بھائی مل کر کام کرتے رہے اور کا م ٹھیک چلتا رہا  پھر آہستہ آہستہ نقصان ہونا شرو ع ہوگیا  حتیٰ کہ جنوری، فروری 2020 ء میں فیکٹری بند ہوگئی، فیکٹری اپنی اصل میں موجود ہی تھی جیساکہ زمین ، مشینری، بلڈنگ، بجلی کنکشن وغیرہ وغیرہ۔ بھائی *** *** نے ہم سے دوبارہ کام کرنے کی اجازت طلب کی اور ہم تمام بھائیوں نے آپس میں مشاورت کی اور اسی مہینے فروری یا مارچ 2020ء کو مینجمنٹ کنٹرول بھائی *** سے لیکر  بھائی حافظ *** کو دیدیا اور فیکٹری  دوبارہ سے چل گئی اور سارے بھائیوں نے مل کر کام جیسے پہلے چل رہا تھا شروع کردیا۔بھائی *** نے  فیکٹری کو دوبارہ چلانے کے لیے الگ سے اپنا سرمایہ نہیں ڈالا تھا بلکہ انہوں نے ہمارے CFO(Chief finance Officer)   کے مشورے  پر عمل کیا تھا جنہوں نے کہا کہ آپ کی مارکیٹ میں ساکھ اچھی ہے لہذا ادھار میٹیریل (خام مال ) خریدیں اور کاروبار شروع کریں ،بھائی *** کا کہنا ہے کہ چونکہ *** خریداری کے شعبے میں تھے اس لیے انہوں نے خود ہی ایسے حالات پیدا کیے کہ کاروبار خراب ہوا  اور چونکہ ان کو معلوم تھا کہ کاروبار بیٹھنے کی کیا وجہ ہے اس لیے انہوں نے کاروبار کی خرابیوں پر قابو پا لیا ۔

آپ سے گذارش ہے کہ بیان کردہ معاملات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شریعت کی روشنی میں درج ذیل پوائنٹس پر فتویٰ جاری کردیں۔

1۔مذکورہ بالا تفصیل  کے مطابق بھائیوں کی شرعی وراثت کی تقسیم کی وضاحت کردی جائے۔

2۔سوال میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب حافظ *** یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ چونکہ 2020 سے کام میں نے چلایا ہے لہٰذا باقی بھائیوں کا کوئی شرعی حق نہیں بنتا ہے حالانکہ ہم سب ابھی بھی سب مل کر کام کررہے ہیں،۔ ہم آپ کے تعاون کے بے حد مشکور رہیں گے۔

فریق دوم(حافظ ***)  کا موقف :

ہمارا اصل جھگڑا یہ ہے کہ بھائی *** اور بھائی*** یہ کہتے ہیں کہ والد صاحب نے جنرل سٹیل مل خاص ہمارے لیے بنائی تھی جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ،صحیح بات یہ ہے کہ والد صاحب نے جن تین بھائیوں کے لیے  جنرل سٹیل مل لگائی تھی ان میں بھائی*** اور بھائی *** کے ساتھ تیسرا فرد میں تھا،یہ مل کسی کو مالک بنانے کے لیے نہیں لگائی تھی بلکہ کاروبار جاری رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی جیساکہ مشترکہ خاندان میں ہوتا ہے،میں شروع دن سے اس مل میں شریک تھا بلکہ مل کی مشینری چالو کرنے کے لیے میں نے مزدوروں کی طرح کام کیا تھا اور جب مل آپریشنل  (چلنا شروع )ہوگئی تو میں والد صاحب کے ساتھ دوسری(سٹی)  مل میں شفٹ ہو گیا اور والد صاحب کے  ساتھ بھائی *** کلیم تھے وہ میری جگہ جنرل سٹیل میں شفٹ ہو گئے۔

بھائی *** اور *** نے یہ کہا کہ *** کلیم ہمارے ساتھ شریک تھا جبکہ *** کلیم خود بھی یہ کہتے ہیں کہ والد صاحب نے ہمیں مالک نہیں بنایا بلکہ سب کی مشترکہ مل تھی اور ہم والد صاحب کی سربراہی میں کام کررہے تھے۔

بھائی *** اور بھائی *** کا یہ کہنا کہ والد صاحب نے یہ مل ہمیں ہدیہ کی ہے ،ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ ان کے پاس اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں اور اگر یہ مان لیا جائے کہ انہوں نے ہدیہ ہی کی ہے تو پھر تو میں بھی ان کے ساتھ ابتداء میں ہی شریک ہوگیا تھا اس لحاظ سے مجھے بھی ہدیہ ہونی چاہیے لیکن یہ بات غلط ہے۔اس لیے کہ باقی بیٹوں کو چھوڑ کر صرف تین بیٹوں کو مالک بنانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

اس کے بعد بھائی *** اور*** کا یہ کہنا کہ ’’ مفتی *** صاحب نے بتایا کہ جو رقم والد صاحب نے آپ کو جنرل سٹیل مل میں دی وہ ہبہ ہے‘‘ درست نہیں ہے انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ اگر والد صاحب نے آپ کو مالک بنایا تھا تو پھر ہبہ ہے اور اگر مالک نہیں بنایا تو ہبہ نہیں ہے،یعنی انہوں نے مشروط بات کی تھی انہوں نے ایک بات لے لی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ  ’’ مفتی *** صاحب نے بتایا کہ جو رقم والد صاحب نے آپ کو جنرل سٹیل مل میں دی وہ ہبہ ہے‘‘

اس کے علاوہ جامعہ ***یہ کے فتوے کی حقیقت یہ ہے کہ جامعہ ***یہ نے یکطرفہ بیان پر فتوٰی دیا تھا اور جب میں فتوٰی لے کر جامعہ ***یہ پہنچا تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کا بیان ان کے بیان سے مختلف ہے اس لیے ہمارا فتوٰی کالعدم ہے یعنی اس فتوے میں جو بات کی گئی ہے وہ واپس لی جاتی ہے،اس کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو بلایا اور پوچھا کہ آپ کے بھائی کا بیان آپ کے بیان سے مختلف ہے اس لیے اب آپ بتائیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے انہوں نے ان سے سوچ و بچار کے لیے کچھ دن لیے اور کچھ دن کے بعد انہوں نے جامعہ ***یہ جا کر کہا کہ ہم جنرل سٹیل مل کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار ہوتے ہیں اور ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم سب بھائی ایک طرح کے حصہ دار ہیں ۔

اب جب جامعہ ***یہ کے دارالافتاء کے سامنے سارا معاملہ حل ہو چکا ہے تو آپ کے سامنے یہ مسئلہ اس لیے لائے ہیں کہ یہ لوگ مشترکہ کاروبار سے مختلف قسم کے مطالبے(ڈیمانڈز) کرتے ہیں اور میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ ہم پہلے ہی مارکیٹ کے پیسوں سے چل رہے ہیں اور ہم نے مختلف لوگوں سے ایڈوانس لیا ہے آپ کو جو ماہانہ حصہ ملتا ہے وہ کافی ہے اس سے زیادہ مطالبہ نہ کریں اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ ہماری بے عزتی کرتے ہیں اور پیسے نہیں دے رہے لہذا ہم نے جامعہ ***یہ میں جو اقرار کیا تھا اس سے منحرف ہو رہے ہیں ،ان کے اس طرز عمل کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کاروبار میں سے اپنا سرمایہ نکال کر کم کردیا ہے اور اضافی حصے کا مطالبہ کرکے یہ چاہ رہے ہیں کہ اگر ہمیں اضافی نہ بھی ملے تو کم از کم دیگر بھائیوں کے برابر حصہ تو مل ہی جائے گا۔

انہوں نے جامعہ ***یہ سے پوچھے گئے سوال میں یہ بھی لکھا ہے کہ’’ حافظ *** صاحب یہ دعوٰی کررہے ہیں کہ چونکہ 2020 سے کام میں نے چلایا ہے لہذا باقی بھائیوں کا کسی قسم کا کوئی شرعی حق نہیں بنتا‘‘  یہ بات غلط ہے ،میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جب فیکٹری میں نے چلائی تو اس وقت فیکٹری مقروض تھی اور ہم کئی بینکوں سے قرضہ لے کر دیوالیہ ہو چکے تھے اس کے علاوہ ہم مارکیٹ سے ایڈوانس بھی پکڑ چکے تھے جو کہ کروڑوں میں تھی،میں صر ف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ کمپنی تمام بھائیوں میں مشترکہ ہے اور میں تمام بھائیوں کو ان کی تنخواہ ہر ماہ دیتا ہوں اس کے باوجود باقی بھائی مجھ سے ایکسٹرا (اضافی) مطالبے کررہے ہیں ۔

خلاصہ

مذکورہ بالا تحریری  بیانات  اور ٹیلی فون پر لیے گئے  زبانی بیانات کی روشنی میں محل نزاع دو امور ہیں :1)فریق اول یعنی *** صاحب اور *** صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے والد صاحب نے جنرل سٹیل مل خاص ہم تین بھائیوں کو ہدیہ کردی تھی اس لیے جب جنرل سٹیل مل ختم ہو گئی تو ہم نے دوسری مل میں (جو کہ  جنرل کے نام ہی سے تھی لیکن اس کی جگہ ہم نے تبدیل کردی تھی)  وہی سرمایہ لگایا  اور اس کے بعد وہی سرمایہ اب صوفی سٹیل مل میں لگایا ہے لہذا موجودہ کاروبار میں جتنا سرمایہ جنرل سٹیل مل سے ہمارے نام پر چلتا آرہا ہے  وہ تو ہمارا ہی ہے اور جو سرمایہ اس کے علاوہ ہے وہ  ہمارے والد صاحب کی وراثت ہونے کی وجہ سے مشترکہ ہے حافظ *** یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ چونکہ 2020 سے کام میں  نے چلایا ہے لہٰذا باقی بھائیوں کا کوئی شرعی حق نہیں بنتا ہے حالانکہ ہم سب ابھی بھی سب مل کر کام کررہے ہیں ۔

اور  فریق ثانی (حافظ *** صاحب ) کا کہنا یہ ہے کہ والد صاحب نے ان کو جنرل سٹیل مل ہدیہ میں نہیں دی اور نہ ہی اس  بات کی کوئی وجہ بنتی ہے کہ باقی چھوٹے بیٹوں کو چھوڑ کردو ،تین کو نواز یں  یہ تو مشترکہ کاروبار تھا اور والد صاحب نے ان کو سرمایہ دے کر کاروبار شروع کروایا تھا اور اس کے بعد جب مل ختم ہوئی ہے تو وہی سرمایہ ہماری دوسری اور پھر تیسری مل میں لگایا گیا ہے، وہ بھائی چونکہ بڑے تھے اس لیے ان کو ہی کاروبار شروع کروایا ہےاس کے علاوہ ہدیہ کی بات میں نہ کوئی صداقت ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے ۔ اور یہ کہنا کہ میں  موجودہ(صوفی)  سٹیل مل  میں اکیلے مالک ہونے کا دعوٰی کررہا ہوں یہ بھی غلط ہے بلکہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ مل ہم سب میں مشترکہ ہے۔

تنبیہ: فریق اول (*** صاحب ) سے جب جنرل سٹیل مل کے ہدیہ ہونے کے متعلق ثبوت مانگا گیا تو انہوں نے بتایا  کہ ہدیہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جنرل سٹیل مل  کے زمانے میں ہم نے اپنے خالو سے ایک معاہدہ کیا تھا جو کہ ابھی بھی ہمارے پاس موجود ہے جس میں ایک فریق ہمارے خالو تھے اور دوسرے فریق ہم تین بھائی تھے اور ہمارے ہی دستخط اس پر ہیں اگر ہم سب بھائیوں کا مشترکہ کاروبار ہوتا تو سب کے دستخط اس پر ہوتے ۔

نوٹ:فریقین   کی 4 بہنیں بھی ہیں اور والد صاحب کے مجموعی ترکے بشمول فیکٹری ،سے ان کے حصے  کے بقدر رقم کا اندازہ لگا   کر ان کا حصہ مقرر کردیا گیا ہے،جن میں سے دو بہنوں کو حصہ دیا جا چکا ہے اور بقیہ دو بہنوں کو حصہ دیا جانا باقی ہے،یہ بات  حافظ *** صاحب(فریق دوم)  نے بیان کی ہے اور  اس کی تصدیق *** صاحب (فریق اول )   نے بھی کی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)چونکہ فریق اول کے پاس اپنے اس  دعوٰی پر (کہ والد صاحب نے جنرل سٹیل مل خاص انہی کے لیے لگائی تھی)کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا جنرل سٹیل مل کا جو سرمایہ بعد میں دوسری ملوں میں لگا ہے  وہ سب کا سب والد صاحب کا ترکہ ہے اور تمام   بھائیوں کا  اس میں برابر کا حصہ ہے۔خالو سے معاہدے میں صرف تین بھائیوں کے دستخط ہونا ملکیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ اس  بات کی تائید مندرجہ ذیل امور سے بھی ہوتی ہے:

۱:فریق اول کے بقول والد صاحب کی زندگی میں تمام امور والد صاحب ہی طے کرتے تھے کہ کس بھائی نے کس فیکٹری میں کام کرنا ہے ،اگر والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی ان کو جنرل سٹیل مل کا مالک بنایا ہوتا تو والد صاحب اس میں عمل دخل نہ کرتے  اور اگر کسی قسم کا عمل دخل کرتے تو فریق اول یہ کہہ سکتا تھا کہ چونکہ آپ نے ہمیں اس مل میں لگنے والے سرمائے کا مالک بنایا ہے لہذا ہم اس میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے۔

۲:فریق اول کے بیان سے واضح  ہورہا  ہے کہ والد صاحب کی زندگی میں  ان کو اس با ت کا  علم نہیں تھا کہ والد صاحب نے ان کو جنرل سٹیل مل میں لگا ہوا سرمایہ ہدیہ کیا ہے ۔

۳:فریق اول کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہے کہ والد صاحب کی زندگی میں تمام بھائیوں کو والد صاحب کی  مرضی سے تنخواہ  ملتی تھی ایسا نہیں تھا کہ فریق اول(تین بھائیوں) کو  تنخواہ کے علاوہ اپنے حصے کے بقدر نفع بھی ملتا تھا، اگر واقعۃً فریق اول جنرل سٹیل مل کے مالک ہوتے تو ان کو اپنے حصے  کے بقدر نفع الگ سے ملتا اور اپنے کام کی تنخواہ الگ سے ملتی۔

۴:فریقین کے بقول انہوں  نے اپنی بہنوں کو  فیکٹری سمیت   تمام اثاثوں میں متناسب حصہ ادا کیا ہے اگر  والد صاحب نے فریق اول (تین بھائیوں ) کو جنرل سٹیل کا سرمایہ ہدیہ کیا ہوتا تو فریق اول (بڑے تین بھائی) اپنا حصہ نکال کر بقیہ حصہ بہنوں میں تقسیم کرتے۔

2)فریق دوم حافظ *** صاحب کے بقول وہ اس بات کا دعوٰی نہیں کررہے لہذا  اس سوال کے جواب کی ضرورت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved