• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ مکان میں بہن کا بھائیوں سے اپنے حصے کامطالبہ کرنا

استفتاء

مفتی صاحب میرے خالہ زاد بھائی مرحوم (***) کا چار مرلے کا ایک مکان ہے۔ ***کے ورثاء میں دو بیٹے ( ***،  ***) اور تین بیٹیاں (*** )ہیں ۔تمام بچے شادی شدہ ہیں مرحوم کی بیوی فوت ہو چکی ہے۔ مرحوم ***کے دونوں بیٹے اپنے اپنے  کنبہ کے ساتھ اس مکان میں رہ رہے ہیں اور مرحوم کی ایک (بیٹی *** ) کرائے کے مکان میں رہتی ہے اس کا بھائیوں سے مطالبہ ہے کہ میرا مکان میں جو حصہ ہے وہ دیا جائے یا مجھے میرے حصے کا کرایہ  دیا جائے یا گھر کا ایک کمرہ دیا جائے جو کہ خالی ہے۔ بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہم ایک سال بعد بہن کو اس کا حصہ ادا کر دیں گے لیکن کرائے  کا مطالبہ غلط ہے یہ ہم نہیں مانتے۔

میرے والد صاحب  حاجی***کو انہوں نے منصف بنایا ہوا ہے میں چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب جذبات میں کوئی فیصلہ نہ کریں اور شرعی حکم کے مطابق ان بچوں کے درمیان فیصلہ کروائیں، لہذا شرعی حکم کیا ہے؟راہنمائی فرمائیں۔ورثاء کے نمبر درج ذیل ہیں:

بہن(***) کا بیان:

ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں ،میرے والد کے انتقال کو ایک سال اور سات ماہ ہو چکے ہیں اور میری والدہ تین ماہ پہلے فوت ہوئی ہیں، میرے والد کا ایک ڈبل سٹوری مکان ہے جس کے اندر چار کمرے ہیں اس میں میرے دونوں بھائی اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہے ہیں، میری دو بہنوں کے اپنے ذاتی مکان ہیں جن میں وہ رہ رہی  ہیں لیکن میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہوں میں نے اپنے بھائیوں سے مطالبہ کیا  کہ یا تو مکان تقسیم کر دیں یا مجھے بھی گھر کے اندر موجود خالی کمرے میں رہائش دے دیں ورنہ پھر مجھے کرایہ دیں لیکن بھائی نہ رہائش دینے کے لیے تیار ہیں نہ کرایہ دینے کے لیے تیار ہیں بلکہ کہہ رہے ہیں کہ ایک سال بعد گھر کی تقسیم کریں گے پھر آپ کا جو حصہ ہوگا وہ آپ کو دے دیں گے۔

بھائی(*** )کا بیان:

ہم پانچ بہن بھائی ہیں اور سب شادی شدہ ہیں، ہمارے والد صاحب کا چار مرلے کا مکان ہے،  ہماری ایک بہن (***)مطالبہ کر رہی ہے کہ مجھے مکان میں رہائش دو یا مکان کی تقسیم کردو ورنہ  میرا کرایہ بھر دیا کرو، ہم کرایہ دینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی رہائش دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ رہائش کی وجہ سے لڑائی جھگڑے بہت زیادہ ہوتے ہیں،  پانچ سال پہلے جب والد صاحب حیات تھے یہ ہمارے ساتھ رہتی تھی لیکن لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے والد صاحب نے گھر سے نکال دیا تھا البتہ ہم حصہ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ابھی نہیں کیونکہ اب حالات بہت خراب ہیں،  ہم سے اسٹام پیپر لکھوا لیں کہ ایک سال بعد ہم حصہ دے دیں گے۔

بھائی(***) کا بیان:

ہماری بہن (***) کا مطالبہ ہے کہ مجھے گھر میں رہائش دویا پھر میرا کرایہ بھر دیا کرو(کیونکہ وہ کرایہ کے مکان میں رہ رہی ہے) ورنہ گھر کی  تقسیم کر دو ہم گھر کی تقسیم کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں ایک سال کی مہلت چاہیےکیونکہ ہم دیہاڑی دار مزدور لوگ ہیں  اتنی جلدی گھر بیچ کر اپنے لیے دوسری رہائش کا بندوبست نہیں کر سکتے  اور کرایہ بھی نہیں بھر سکتے اور رہائش بھی نہیں  دے سکتے کیونکہ آج سے پانچ سال پہلے جب والدین حیات تھے تو ہماری یہ بہن (***) ہمارے ساتھ ہی رہتی تھی لیکن ان (میاں بیوی)  کےآپس کے جھگڑوں کی وجہ سے اور ہمارے بچوں کے ساتھ جھگڑوں کی وجہ سے والدین نے ان کو گھر سے نکال دیا تھا اور وہ الگ رہنے لگے جب ان کا انتقال ہوا تو ان کو پھر موقع ملا اور دعوی کرنے لگے اور بہن ایک سال مہلت کے لیے تیار ہے لیکن کہتی ہے کہ پھر میرا کرایہ ایک سال کا تم بھرتے رہو گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بہن کا بھائیوں سے کرایہ کا مطالبہ کرنا  درست  ہے لہٰذا  بھائیوں کو چاہیے کہ بہن کے حصے کا کرایہ ادا کریں اور اگر وہ کرایہ دینے کے لیے تیار نہیں  تو پھر بہن کو مکان میں سے اس کے حصے میں رہائش دیدیں ورنہ گھر ورثاء کے درمیان تقسیم کردیں اس لیے بھائیوں کا باوجود اس کے  کہ بعض ورثاء  تقسیم کا مطالبہ کررہے ہیں مشترکہ گھر میں رہنا اور تقسیم نہ کرنا  غلط اور گناہ کی بات ہے۔

شرح المجلہ(4/14) میں ہے:

الماده(1075): کل واحد من الشرکاء فى شرکة الملک أجنبى فى حصة الآخر، يعتبر صاحب ملک مخصوص على وجه الکمال فى السکنى و فى الأحوال التابعة لها کالدخول و الخروج… ثم اعلم أن احد الشريکين فى الدار إنما يحل له السکنى فى مقدار حصته فقط، کما سيأتى فى المادة(1081

فتاویٰ تاتارخانیہ (15/124) میں ہے:

"قال محمد رحمه اللّٰه تعالی: في رجل آجر نصف داره مشاعًا من أجنبي لم یجز، و إذا أجر من شریکه یجوز بلا خلاف في ظاهر الروایة، سواء کان مشاعًا یحتمل القسمة أو لایحتمل.”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved