- فتوی نمبر: 31-79
- تاریخ: 10 مئی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > بیع فاسد کے احکام
استفتاء
میں ایک دکان دار سے مال خریدتا ہوں اور مال کی قیمت بائع کو دے دیتا ہوں، لیکن مال بائع کے پاس ہی پڑا رہتا ہے، پھر وہ بائع واپس اسی مال کو مجھ سے ادھار زیادہ قیمت پر خرید لیتا ہے۔ میں غلہ منڈی ملتان میں آڑھت پر کام کرتا ہوں۔ کیا میرے لیے نفع جائز ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: (1) ایسا کرنے کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ (2) دوسرا سودا اتفاقی طور پر ہوتا ہے یا پہلے سے طے ہوتا ہے؟
جواب وضاحت: (1) منڈی میں ریٹس کا فرق ہوتا ہے، جو کیش پر لیتا ہے اسے سستا ملتا ہے اور جو ادھار لیتا ہے اسے مہنگا ملتا ہے۔ (2) دونوں طریقے ہی ہوتے ہیں، کبھی اتفاقی طور پر ایسا ہوتا ہے اور کبھی پہلے سے طے ہوتا ہے۔نیز واپس بیچنے سے پہلے اس پر قبضہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی تعیین ہوتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاملہ دونوں صورتوں میں یعنی چاہے اتفاقی ہو یا باقاعدہ طے کر کے ہو جائز نہیں۔
توجیہ:مذکورہ دونوں صورتوں میں خریدار قبضہ سے پہلے ہی واپس بیچ دیتا ہے جبکہ عام حالات میں منقولی چیز کو قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں چاہے بائع کو ہی بیچا جائے،نیز دوسری بیع میں چونکہ قیمت پر قبضہ نہیں ہوتا اور پہلی بیع میں مبیع بائع کے ذمے دین ہوتی ہے لہذا بیع الدین بالدین بھی لازم آتی ہے جو کہ جائز نہیں ، نیز اگر طے کر کے ایسا معاملہ ہو تو اس میں صفقۃ فی صفقہ بھی بنتا ہے جو کہ جائز نہیں۔
فتح القدیر(6/510) میں ہے:
“ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض.”
تبين الحقائق شرح كنز الدقائق(4/80) میں ہے:
“لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا.”
صحیح ابن حبان: (رقم الحدیث: 5025)میں ہے:
عن ابن مسعود أنه قال: لا تحل صفقتان في صفقة، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن آكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه
فتاوی عالمگیری (3/13) میں ہے:
هذا إذا تصرف المشتري في المنقول المشترى قبل القبض مع أجنبي وأما إذا تصرف فيه مع بائعه فإن باعه منه لم يجز بيعه أصلا قبل القبض كذا في المحيط
فتاوی شامی(5/147)میں ہے:
و (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه
فتاوی شامی(4/535) میں ہے:
فقد ذكر الخير الرملي أول البيوع عن جواهر الفتاوى: له على آخر حنطة غير السلم فباعها منه بثمن معلوم إلى شهر لا يجوز؛ لأنه بيع الكالئ بالكالئ وقد نهينا عنه
امداد الفتاوی(3/39)میں ہے:
سوال:عمرو نے زید سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگا دو، میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کر لوں گا، یا جس قدر مدت کے واسطے تم دو گے اسی حساب سے منافع دوں گا ،یعنی پانچ روپے یک صد روپے کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے ،جب مال آجاوے گا اس وقت مدت ادھار اور منافع کی معین ہو جاوے گی۔ اس کے جواب میں زید نے کہا کہ میں منگا دوں گا، مگر اطمینان کے واسطے بجائے یک صد کے دوصد رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو ،عمرو نے منظور کیا؟
جواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں، ایک یہ کہ زید اور عمرو میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے، کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں،اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کر دے تو زید کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں، پس اگر عرف وعادت میں عمرو مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے،ورنہ حلال،اسی طرح عمرو کو اور مثل عمرو کے زید کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر و تبدل کر دیں،یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے سیکڑہ نفع پر ٹھہرا تھا ،باقی زیادہ لکھانا یہ بیع ہزل فی مقدارالثمن ہے،اگر عمرو کی بدعہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی ثمن سے زیادہ وصول نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے،نیز زید پر واجب ہوگا کہ ورثاء کو اس کی اطلاع کر دے تاکہ زید کے بعد وہ عمرو کو پریشان نہ کریں۔
امداد الفتاوی(3/40)میں ہے:
سوال: عمرو نے زید کو مبلغ 100 روپے واسطے خریدنے جفت پاپوش کے دئیے اور کوئی اجرت بطور معاوضہ خریداری کے قرار نہیں پائی، متعاقدین میں اجرت کی نسبت ذکر بھی نہیں آیا ، اور قبل خریداری مال اور دینے زر کی قیمت کے باہمی یہ امر طے ہو چکا تھا کہ یہ مال مبلغ سواچھ روپے سیکڑہ کے منافع سے بمیعاد ایک مہینے کے تم کو دے دیں گے، مال دسادر سے خرید کر زید اپنے گھر لے آیا ، اور عمرو کو بلا کر مال دکھلا کر جوڑ دیا یعنی شمار کرا دیا ، اور دونوں نے سمجھ لیا کہ یہ مال مبلغ 100 روپے کا ہے، اس کے بعد عمر ونے زید سے دریافت کیا کہ تم یہ مال ہم سے کس قدر مدت کے واسطے بشرح منافع مذکورہ بالا لیتے ہو، زید نے کہا کہ ایک ماہ کے واسطے لیتا ہوں ۔عمرو نے اس کو قبول کیا ، بعد ختم ہوئے مدت ایک ماہ کے عمرو نے زید سے اصل روپیہ مع منافع طلب کیا ، زید نے صرف منافع مبلغ سوا چھ روپے عمرو کو دے کر اصل روپیہ کی نسبت عذر کیا کہ میرے پاس اس وقت موجود نہیں ہے بلکہ کچھ مال موجود ہے ،کچھ نقد ہے اور کچھ ادھار میں ہے ،عمر ونے کہا کہ اگر تمہارے پاس زر اصل موجود نہیں ہے تو تم اس کے عوض میں اس قدر کا مال آئندہ کے لیے مجھ کو دے کر اور جوڑواکر پھر ہم سے اس کو خرید لو، زید نے مبلغ 100 روپے کا مال اپنے پاس دکھلایا، اور عمر کو دے کر جڑوا دیا ، اور پھر بشرح منافع بالا عمر وسے خرید لیا ، اور مدت کبھی ایک ماہ تراضی طرفین سے قرار پاتی ہے اور کبھی زائد،
جواب: یہاں دو بیعیں علی سبیل التعاقب ہیں، ایک وہ کہ زید نے عمرو سے مال خریدا، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر زید عمرو کو اور عمرو زید کو بیع وشراء پر بنا بر وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے ، اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے،دوسرے بیع وہ جو سو روپیہ بقیہ زر ثمن کے عوض میں زید نے عمرو کو دیا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں یہ شرط ٹھہری کہ پھر عمرو سے زید اس کو خریدے گا تو حرام ہے ، اور اگر یہ شرط نہ ٹھہری پھر اگر خریدے آزادی سے، جدید رائے سے خریدے تو جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved