• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ گھر پر ایک شریک نے پورشن تعمیر کیا، کیا تقسیم کے وقت تعمیر کا خرچہ لے سکتا ہے؟

استفتاء

میں آپ سے اپنے گھریلو مسئلے کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ہمارا اپنا ایک آبائی گھر جو کہ 5 مرلہ پر بنا ہوا ہے ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اور  سب کی شادی ہو چکی ہے جناب عالی میرے والد صاحب 2011 میں وفات فرما گئے تھے لیکن میں کرائے کے مکان میں 2003 سے لے کر 2018 تک رہتا رہا ہوں میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے اصرار پر پیسے لگا کر تیسری منزل تیار کروائی جس پر مبلغ/3300000روپے لگے ہیں۔اس مکان میں میرے چھوٹے بھائی  اور والدین رہتے تھے اب جب کہ میری والدہ محترمہ بھی 2022 میں وفات پا گئی ہے تو میرے بھائیوں اور بہنوں نے کہا ہے کہ مکان فروخت کرو اور ہمیں ہمارا حصہ دو لیکن میں نے جو پیسے لگائے ہیں وہ کس حصہ میں جائیں گے؟  اب سب بہن بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تمام مکان کا حصہ چاہیے۔اب جناب عالی میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں کہ مکان کے حصے کو کس طرح تقسیم کیا جائے میں اپنے لگائے ہوئے پیسے علیحدہ وصول کر لوں یا میری لگائی ہوئی رقم کو بھی شامل کر کے حصے کیے جائیں۔مہربانی فرما کر مجھے شرعی طور پر مشورہ دیں کہ اب کیسے حصے کیے جائیں؟

تنقیح:مستفتی کے بھائی زید صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ہم سب بہن بھائیوں نے بھائی  خالد کو کہا تھا کہ آپ یہاں آ کر رہائش اختیار کر لیں۔وہ رینٹ پر رہتے تھے،انہوں نے اس گھر پر پورشن تعمیر کیا اور اپنی سہولیات کے لیے کافی کام کروایا جس پر خرچہ انہوں نے کیا تھا کتنا خرچہ ہوا یہ ہمیں معلوم نہیں انہی کو معلوم ہوگا۔اب وہ کہتے ہیں کہ میں وہ سارا خرچہ لینا چاہتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ نے ایک منزل کی تعمیر پر جو خرچہ کیا ہے اس کے آپ حقدار ہیں۔لیکن اس کے حصول کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ اس گھر کی دو قیمتیں لگوائی جائیں گی  ایک قیمت مکمل گھر کی اور ایک قیمت آپ کی تعمیر کردہ منزل کے بغیر لگوائی جائے گی۔ان دونوں قیمتوں میں جو فرق ہوگا اس قیمت کے آپ حقدار ہوں گے اس کے بعد پھر بقیہ رقم شرعی طریقے کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہوگی۔

الدر المختار  مع ردالمحتار (9/446) میں ہے:

(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (‌بغير ‌إذن ‌الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك بزازية

(قوله ‌بغير ‌إذن ‌الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.

الدر المختار  مع ردالمحتار(8/556) میں ہے:

(‌ولو ‌أعار ‌أرضا للبناء والغرس صح) للعلم بالمنفعة (وله أن يرجع متى شاء) لما تقرر أنها غير لازمة (ويكلفه قلعهما إلا إذا كان فيه مضرة بالأرض فيتركان بالقيمة مقلوعين) لئلا تتلف أرضه.

قوله مقلوعين) ‌أو ‌يأخذ ‌المستعير غراسه وبناءه بلا تضمين المعير هداية، وذكر الحاكم أن له أن يضمن المعير قيمتها قائمين في الحال، ويكونان له، وأن يرفعهما إلا إذا كان الرفع مضرا بالأرض، فحينئذ يكون الخيار للمعير كما في الهداية.

الدر المختار (9/49) میں ہے:

(و) تصح إجارة أرض (للبناء والغرس) وسائر الانتفاعات كطبخ آجر وخزف ومقيلا ومراحا حتى تلزم الأجرة بالتسليم ‌أمكن ‌زراعتها أم لا بحر (فإن مضت المدة قلعهما وسلمها فارغة) لعدم نهايتهما (إلا أن يغرم له المؤجر قيمته) أي البناء والغرس (مقلوعا) بأن تقوم الأرض بهما وبدونهما فيضمن ما بينهما اختيار (ويتملكه) بالنصب عطفا على ” يغرم “؛ لأن فيه نظرا لهما.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved